نمو پذیر ہے اک دشتِ بے نمو مجھ میں
ظہور کرنے کو ہے شہر آرزو مجھ میں
یہ زخم وہ ہے کہ جس کو دکھانا مشکل ہے
ٹپک رہا ہے مسلسل مرا لہو مجھ میں
رگوں میں چاپ سی کوئی سنائی دیتی ہے
یہ کون ہے کہ جو پھرتا ہے کُو بہ کُو مجھے
میں اپنے لہجے سے ہر لحظہ خوف کھاتا ہوں
چھپا ہوا ہے کوئی شخص تند خُو مجھ میں
No comments:
Post a Comment