Tuesday, 16 July 2019

آرزو کے سراب

آرزو کے سراب

اسی نیم شب کے سکوت میں
وھی چاپ تھی' وہی آہٹیں

وہ رکی رکی سی ہَواےشب
وہ تھمی تھمی سی تھیں دھڑکنیں

وہی عشق پیچاں کی بیل تھی
مِری کھڑکیوں پہ جھکی ھوئی

وہی بام و در ' وہی راستے
وہی موڑ تھا' وہی بے بسی

وہی ڈھلتے چاند کی چاندنی
وہی دُکھتے سانس کے روگ تھے

وہی خواھشیں' وہی زندگی
وہی سارے غم ' وہی سوگ تھے

وہی آنکھ تھی' وہی رتجگے
وہی راکھ راکھ سے خواب تھے

وہی طاقچوں میں دھری ہوئی
مِری آس تھی ' مِرے خواب تھے

وہی عشق پیچاں کی بیل ہے
وہی اَدھ جلے سے گلاب ہیں

انِہیں طاقچوں میں دھری ہوئی
مِری آس ہے ' مِرے خواب ھیں

وہی دھوپ ہے ' وہی دشتِ جاں
وہی آرزو کے سراب ہیں

No comments:

Post a Comment