Tuesday, 23 July 2019

قیدی نمبر 420

※※میں بولوں کہ نہ بولوں※※

""قیدی نمبر 420""

میں 1999 میں SHO کوٹسبزل تعینات تھا میں رحیم یار خان ایک کام کے سلسلہ میں موجود تھا  کہ میرے موبائل پر DIG رانا عابد سعید صاحب مرحوم کی کال آئی اُنہوں نے کہا کے مخدوم احمد محمود  آپ سے ملیں گے ان کا کام ھے ضرور کرنا ھے اور فون بند ھو گیا

تھوڑی دیر بعد مخدوم صاحب کی کال آئی خیریت پوچھنے کے بعد اُنہوں نے بتلایا کہ لاھور کے ایک بٹ صاحب نے ھمیں دھوکا دیا یہاں بزنس اور پولٹری کے کام کا کہا میرے اور یوسف رضا گیلانی سابقہ وزیر اعظم کے تقریباً 5 لاکھ ڈالر کھا گیا ھے جو وصول کرنے ھیں
کیونکہ میرا بھی مخدوم صاحب سے اچھا تعلق تھا اور ھے تو میں نے قانونی کاروائی کا وعدہ کیا
اگلے دن اسلم گیلانی اور ظفر عباسی صاحبان میرے پاس آئے تمام کاغذات دیکھنے کے بعد مقدمہ بجرم 406ت پ درج کر لیا اور تفتیش si رانا کو دی

کیونکہ ملزم لاھور کا تھا اور کافی بااثر شخص تھا اور پھر کیونکہ DIG صاحب کا بھی حکم تھا میں ملازمان کے ساتھ لاھور کے لیئے روانہ ھوا ملتان سے بلال گیلانی جو یوسف رضا گیلانی کے کزن ھیں بھی ھمارے ساتھ نشاندھی کے لیے ساتھ ھو لیے
لاھور پُنہچ کر آرام کیا کیونکہ کافی لمبا سفر تھا اُن دنوں سڑکیں بھی اتنی اچھی نہیں تھیں
اگلے دن تیار ھو کے شام کو تھانہ گلبرگ اپنی آمد کی لیکن وھاں سے کسی کو ساتھ نہ لیا
رات کو کافی دیر تک بٹ کے دفتر واقع مین بلوارڈ گُلبرگ لاھور کے باھر انتظار کیا تقریباً 12بجے رات بٹ صاحب اپنی نئی ھونڈا سوک میں بیٹھنے لگے تو ھم نے لپک جھپک کر قابو کر لیا جب موصوف کو دیکھا تو ایک دفعہ پریشان ھو گیا بٹ صاحب اتنے موٹے تھے کہ اپنی کار میں پورے نہیں آرھے تھے
بڑی مشکل سے بٹ کو کار سے نکالا ملازمان کے ساتھ ویگن میں بیٹھایا اور فوری طور پر رحیم یار خان کیلئے  روانہ ھو گے
راستے میں موصوف کے موبائل پر کالز آتی رھیں
مُلتان پُنہچنے پر مجھے اپنے SSP صاحب کی کال آئی کہ کس کو اُٹھا لایا ھوں پورا لاھور ھلا ھوا ھے میں نے اُنہیں بتایا کہ DIG صاحب نے حکم دیا تھا اب وھی اس کو سنبھالیں گے یا پھر میں سسپینڈ ھوں گا آپ تسلی رکھیں

آخر کار ھم کوٹ سبزل پُنہچ گے بٹ صاحب کھانے پینے کے کافی شوقین تھے باوجود گرفتاری و پریشانی اُن کی خوش خوراکی میں کوئی فرق نہ آیا اور کیونکہ خرچہ بذمہ مدعی تھا مجھے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا تھا
تھانہ پُنہچ کر بٹ صاحب سے پیسوں کا بڑے آرام سے پوچھا کیونکہ بٹ صاحب نے ھمیں راستے میں خبردار کر دیا تھا کہ وہ بلڈ پریشر ،دل اور شوگر کے مریض ھیں اُن سے کی گئی کسی قسم کی زیادتی ھمارے لیے بہتر نہ ھو گی

اور میرے ذھن میں اپنے ساتھ گزرا سانحہ یزمان گھوم گیا جس میں میں اور میرے بے گُناہ ملازمان 42 دن حوالات اور جیل یاترا کر چکُے تھے

کیونکہ بٹ صاحب کو اندازہ تھا کہ اُن کی سفارشیں تگڑی ھے اور وہ جلدی چھوٹ جائیں گے اس لیئے وہ میرے سامنے بڑی کرس پر بیٹھے بڑے تحمل اور آرام سے چائے پی رھے تھے

کُچھ دیر بعد دو تین بڑی گاڑیاں آ کے تھانہ کے باھر رُکیں جن سے کافی خوش پوش افراد اُتر ے پورا تھانہ پریشان ھو گیا کہ اب کیا ھو گا
کیونکہ مدعی بھی بااثر تھے جن میں رئیس محبوب اسلم گیلانی بلال گیلانی اور دیگر تھانہ میں موجود تھے اس لیے ھمارے لیے بہتر ھوا اور دونوں آپس میں مصروف ھو گے
شام تک کوئی نتیجہ نہ نکلا بٹ صاحب کوئی بات ماننے کو تیار نہ تھے

اور میں تھا کہ کبھی کسی DIG کبھی SSP کبھی سیاستدان کے فون پر فون آرھے تھے جو کبھی آرام سے اور کبھی دبی دبی دھمکیوں کے ساتھ مجھے سمجھانے کی کوشش فرما رھے تھے کہ بٹ کو نہ چھوڑا تو میرے حق میں بہتر نہ ھو گا

پھر مجھے اپنے DIG رانا عابد سعید کی کال آئی وہ بھی مجھ پہ ناراض ھو رھے تھے کہ میں نے معاملے کو درست طریقہ سے  ھینڈل نہیں کیا اور ساتھ یہ بھی بولا کہ اگر اس میں کوئی گڑبڑ ھوئی تو تمہاری خیر نہیں
اب یہ صورت حال تھی کہ آگے کھڈا پیچھے کھائی؟

ملزم کے سفارشی اُسے چھوڑنے کا کہہ رھے تھے اور مدعی یہ چاھتے تھے کہ 5 لاکھ ڈالر ابھی مل جائیں

اب میری یہ حالت تھی بٹ کو چھوڑتا تھا تو مرتا تھا اور نہیں چھوڑتا تو بھی مرتا تھا

میں نے اپنے تجربات کی روشنی میں سوچتے ھوئے  خود ھی یہ فیصلہ کیا کہ اب جو بھی ھونا ھے میرے ساتھ ھی ھونا ھے کسی بھی افسر نے میری مدد نہیں کرنی تھی چناچہ

میں تھانہ کے اندر گیا اور تمام سفارشیوں کو کہا کہ آپ لوگ جائیں یہ fir کا مُلزم ھے میں اسے گرفتار کرتا ھوں سب میرا مُنہ دیکھنا شروع ھو گے کہ SHO کو کیا ھو گیا ھے
جونہی مدعی مقدمہ کے سفارشی اور ملزم کے سفارشی باھر گے میں نے بٹ صاحب کی شان میں گستاخی کرتے ھوے کرسی سے کھڑا کیا محرر کو کو کہا کہ ان کو حوالات میں بند کر دے گرفتاری ڈال دے
ان کا پر ھیزی کھانا (نہاری ھریسا مٹن پالک سری پائے) بھی بند کر دے اور میں ساتھ ھی واقع اپنی رھائیش گاہ پر چلا گیا

گرمیوں کے دن تھے جون کا مہینہ تھا تقریناً دس بجے رات محر ر تھانہ میری رھائش پر بھاگتا ھو آیا اور بولا سر تھانہ پر چلیں بٹ نے شور مچا کہ تھانہ سر ہر اُٹھایا ھوا ھے
میں فوری تھانہ گیا بٹ صاحب حوالات کے جنگلے سے مُُنہ لگائے رو رھے تھے اور فرما رھے تھے کہ مجھے باھر نکالو میری بیوی کی طلاق پہ دستخط کروا لو  پر مجھے باہر نکالو
گرمی ,حوالات میں ایک پنکھا اور 22/23 حوالاتی اور موٹے بٹ صاحب طبیعت درست ھو گی

انہیں حوالات سے نکلوا کر میرے دفتر میں لایا گیا بٹ بولا میرے سفارشیوں کو بلوائیں چناچہ مدعی اور سفارشیوں کو بلایا گیا بٹ صاحب نے اپنا قصور مانا اور فوری طور پر ادائیگی کا فیصلہ ھو گیا اور ادائیگی کر دی گی
مگر میں نے بٹ کو رات رھانہ میں رکھا صُبح مدعی نے عدالت میں صُلح نامہ دیا اور بٹ کی ضمانت ھو گی

اس ساری کہانی لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ جیل میں A کلاس گھر سے مزیدار  کھانے ،اپنی مرضی کے پروڈیکشن آرڈرز  ،ریمانڈ جسمانی پر انٹرویوز اور پریس کانفرنسز  میڈیکل پر عیاشی شہد بوتلیں

تو عمران خان صاحب اس طرح تو مُلک و قوم کا پیسہ نہیں نکلے گا

آپ کو اُنگلی ٹہڑی کرنی پڑے گی ورنہ آپ قوم سے کیا گیا وعدہ کبھی پورا نہیں کر سکیں گے اور پھر جو آپ کا حال ان سب نے مل کے کرنا ھے آپ اندازہ بھی نہیں کر سکتے
عزت ذلت زندگی موت سب اللہ کے ھاتھ میں ھے اب بھی وقت ھے کر جاو اس مُلک کو بچا لو ورنہ مریم صفدر پھر جُنید صفدر ،
بلاول زرداری اس کے بعد آصفہ زرداری ھمارے حکمران ھوں گے

اور ھم تو ویسے غلامی میں رھنا پسند کرتے ھیں پہلے انگریز پھر فوجی آمر اور پھر ان آمروں کی پیداوار حکمران

کیا اس لیئے قائد اعظم نے پاکستان بنایا تھا یہ قائد کا پاکستان تو نہیں ھے یہ تو ان کُچھ خاندانوں کا پاکستان ھے جو ھمارے آقا ھیں اور یہ پاکستانی ان کے غلام

عزیز اللہ خان ڈی ایس پی (ریٹائرڈ)

No comments:

Post a Comment