تیرا چپ رہنا میرے ذہن میں کیا بیٹھ گیا
اتنی آوازیں تُجھے دیں کہ گلا بیٹھ گیا
یوں نہیں ہے کہ فقط میں ہی اُسے چاہتا ہوں
جو بھی اُس پیڑ کی چھاؤں میں گیا بیٹھ گیا
اتنا میٹھا تھا وہ غُصّے بھرا لہجہ مت پُوچھ
اُس نے جس جس کو بھی جانے کا کہا بیٹھ گیا
اپنا لڑنا بھی محبت ہے تُمہیں علم نہیں
چیختی تُم رہی اور میرا گَلا بیٹھ گیا
اُس کی مرضی وہ جِسے پاس بِٹھا لے اپنے
اِس پہ کیا لڑنا فلاں میری جگہ بیٹھ گیا
بات دریاؤں کی، سورج کی، نہ تیری ہے یہاں
دو قدم جو بھی میرے ساتھ چلا بیٹھ گیا
بزمِ جاناں میں نشِستیں نہیں ہوتیں مَخصُوص
جو بھی اِک بار جہاں بیٹھ گیا بیٹھ گیا
No comments:
Post a Comment