رمزِ ہمیشہ
اے خدا، اے خدایاں خدا، اے خداوند
میں تجھ سے معمور تھا
خود سے مسحور تھا
اور ایک میں ہی کیا
نیلگوں آسمانوں سے دیوان خانے کی
سرسبز
نکہت نفس
کیاریوں تک کا سارا سماں
تجھ سے معمور تھا
خود سے مسحور تھا
شہر میں معجزوں اور موسم کے میووں کی بہتات تھی
اور میووںکی چاہے کسی فصل میں
کچھ بھی کمی ہوئی ہو
مگر معجزے روز افزوں تھے
ایمان کا ابرِ باذل
دلوں کی زراعت کو شاداب رکھتا تھا
شام و سحر اپنے مرموز آغاز و انجام کے
حسن میں
محو رہتے تھے
وہ دور اپنے تحیر کی خر سند حالت میں
اور اپنے ابہام کی دست و دل باز سمتوں کے
پندارہ پرور مرامیز کی ہر علامت میں
اک خواب کا خواب تھا
خواب کی روبروئی تھی
اور چار سوئی تھی
ہم خواب تھے اور خوابوں میں مشغول تھے
ایک دن
شہر کے ایک شیوا بیاں اور خوش لہجہ نثار
دیوان خانے میں تشریف لائے
جہاں ابنِ سکیت کا
تذکرہ ہو رہا تھا
ذرا دیر کے بعد
اس تذکرے کے تسلسل مین وقفہ سا پیدا ہوا
پس وہ بابا کی جانب نظر کر کے گویا ہوئے
آپ حضرات نے آج کا معجزہ سن لیا؟
ان پہ اک حالت گریہ طاری تھی
پھر وہ گلوگیر آواز میں
ساری روداد اس معجزے کی سنانے لگے
جو عزا خانہ شاہ مسکین میں
دیکھ کر آئے تھے
مجھ کو ان کا بیاں آج بھی یاد ہے
اک جواںحالت جاںکنی میں
ضریح مقدس کے محضر میں لایا گیا
اور اس کے علم کے پھریرے کی
انفاس پرور ہوا دی گئی
اور پھر یہ ہوا
وہ جواں اس طرح چونک اٹھا
جیسے اب تک وہ سویا ہوا تھا
مگر اب کسی کے جگانے سے
یک بارگی جاگ اٹھا ہے
اسے اک نئی زندگی مل گئی تھی
وہاں کوئی بھی شخص ایسا نہیں تھا
جسے اس پہ حیرت ہوئی ہو
کہ یہ بات تو
چھوٹے حضرت کے صدقے میں ہونی ہی تھی
وہ خجستہ وہ خوش ماجرا روز و شب
روز و شب ہی نہ تھے
اک زمانِ الوہی کا انعام جاری تھے
اور ایک رمزِ ہمیشہ کا
سرچشمہ جاوداں تھے
وہ سر چشمہ جاوداں جس کی تاثیر سے
اپنا احساسِ ذات ایک الہام تھا
جس سے روحِ در و بام سرشار تھی
اس فضا میں کوئی شے فقط شے نہ تھی
ایک معنی تھی
معنی کا فیضان تھی
کتنا شفاف تھا روح کا آسماں
کتنی شاداب تھی آگہی کی زمیں
ہم کو اپنا نسب نامہ تا آدمِ بوالبشر یاد تھا
قبلِ تاریخ کی ساری تاریخ ذہنوںمیں محفوض تھی
ہم کو صبحِ تخستینِ ایجاد سے
اپنے اجداد تک
اپنے دالان و در
ان کی بنیاد تک
ساری تفصیلِ کون و مکاں یاد تھی
ہم سب اپنے یقین و گماں کے فرحناک
اسرار میں
شاد و خرم تھے
خوش بین و خرسند تھے
اے خداوند! میں تجھ سے معمور تھا
اور پھر
عقل انگیزہ جو درمیاں آگئی اے
خدا ایک سفاک پرخاش و پیکار تھی
جو مرے اور مرے درمیاں چھڑ گئی تھی
مرے زہن میں نا سزا ،جاں گزا آگہی کا جہنم بھڑکنے لگا
اور پھر
وہ زمانہ بھی آیا کہ جب
میں ترے باب میں مضمحل ہوگیا
بادِ یغما گرِ نفی و انکار نے
ان فرحناک اسرار کے
عالمِ خواب آگیں کو زیر و زبر کر دیا
وہ خجستہ وہ خوش ماجرا روز و شب
وہم و خواب و خیال و گماں ہو گئے
وہ معانی وہ احوال جاں آفریں
بے اماںہو گئے
فیضِ توفیق کی
وہ رسد رک گئی
وہ یقیں کے افق
بے نشاں ہو گئے
جو بھی آسان تر تھا وہ دشوار تر ہو گیا
میری حالت یہ تھی
جیسے میں اک سفر کردہ دور افتاد ہوں
اور ایقانِ فرخندہ و برگزیدہ کی وہ سر زمیں
میرے لمسِ کفِ پا سے
قرنوںکی دوری میں
گم ہو چکی ہے
میں تنہا ہوں
بے چارہ ہوں
جب میں دائیں طرف دیکھتا تھا
تو کیا دیکھتا تھا
کہ انجیر و شہتوت پژمردہ ہیں
جب میں بائیں طرف دیکھتا تھا
تو کیا دیکھتا تھا
کہ سارے شمالی پرندے
جنوبی افق کے زبونی زدہ
زرد ابہام میں
پھڑپھڑاتے ہوئے
بے نشاں ہوتے جاتے ہیں
تب میں نے گزرے زمانوںمیں
اور آنے والے زمانوں میں فریاد کی
اے خدا!
اے خداوند!
اب مرا باطنِ ذات ویران ہے
اب درونِ دروں
اور بیرونِ بیروں
فقط اک خلا ہے
فقط ایک لا
دہر دہر اور دیوم دیوم میں
اب عدم در عدم کے سوا کچھ نہیں
اے خداوند تو کیا ہوا
مجھ کو تیرے نہ ہونے کی عادت نہیں
وائے برحالِ ژرفا و بالا و پہنا!
دریغا! سبب ہر مسبب سے اپنے جدا ہوگیا
حسرتا! کہکشاؤں کے گلوں کا چوپان کوئی نہیں
اور پھر میں نے
موجود کے دائرے کی نہایت پہ نالہ کیا
اے یقیں کے گماں
اے گماں کے یقیں
اے ازل آفریں
اے ابد آفریں
اے خدا الوداع
اے خدایاں خدا
الوداع، الوداع