Showing posts with label Jaun Elia. Show all posts
Showing posts with label Jaun Elia. Show all posts

Saturday, 20 July 2019

ہار جا اے نگاہِ ناکارہ

ہار جا اے نگاہِ ناکارہ
گُم افق میں ہوا وہ طیارہ 

آہ وہ محملِ فضا پرواز
چاند کو لے گیا ہے سیارہ 

صبح اُس کو وداع کر کے میں
نصف شب تک پھرا ہوں آوارہ

سانس کیا ہیں کے میرے سینے میں
ہر نفس چل رہا ہے اِک آرا 
 
چاند ہے آج کچھ نڈھال نڈھال
کیا بہت تھک گیا ہے ہرکارہ
جون ایلیا

Wednesday, 17 July 2019

نیا رشتہ

نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم 
خموشی سے ادا ہو رسمِ دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم 
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم 
وفا، اخلاص، قربانی،مرو ّت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم 
سنا دیں عصمتِ مریم کا قصّہ؟
پر اب اس باب کو وا کیوں کریں ہم 
زلیخائے عزیزاں بات یہ ہے
بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کری ہم 
ہماری ہی تمنّا کیوں کرو تم
تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم 
کیا تھا عہد جب لمحوں میں ہم نے
تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم 
اُٹھا کر کیوں نہ پھینکیں ساری چیزیں
فقط کمروں میں ٹہلا کیوں کریں ہم 
جو اک نسل فرومایہ کو پہنچے
وہ سرمایہ اکٹھا کیوں کریں ہم 
نہیں دُنیا کو جب پروا ہماری
تو پھر دُنیا کی پروا کیوں کریں ہم 
برہنہ ہیں سرِبازار تو کیا
بھلا اندھوں سے پردہ کیوں کریں ہم 
ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھی
سو خود پر بھی بھروسا کیوں کریں ہم 
چبا لیں کیوں نہ خود ہی اپنا ڈھانچہ
تمہیں راتب مہیا کیوں کریں ہم 
پڑی رہنے دو انسانوں کی لاشیں
زمیں کا بوجھ ہلکا کیوں کریں ہم 
یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی
یہاں کارِ مسیحا کیوں کریں ہم 

 

ق

ق 

حاصل کُن ہے یہ جہانِ خراب
یہ ہی ممکن تھا اتنی عجلت میں 
پھر بنایا خدا نے آدم کو
اپنی صورت پہ ایسی صورت میں 
اور پھر آدمی نے غور کیا
چھپکلی کی لطیف صنعت میں 
اے خدا( جو کہیں نہیں موجود)
کیا لکھا ہے ہماری قسمت میں 

 

سر ہی اب پھوڑیے ندامت میں

سر ہی اب پھوڑیے ندامت میں
نیند آنے لگی ہے فرقت میں 
ہیں دلیلیں تیرے خلاف مگر
سوچتا ہوں تیری حمایت میں 
روح نے عشق کا فریب دیا
جسم کا جسم کی عداوت میں 
اب فقط عادتوں کی ورزش ہے
روح شامل نہیں شکایت میں 
عشق کو درمیاں نہ لاؤ کہ میں
چیختا ہوں بدن کی عسرت میں 
یہ کچھ آسان تو نہیں ہے کہ ہم
روٹھتے اب بھی ہیں مروت میں 
وہ جو تعمیر ہونے والی تھی
لگا گئی آگ اس عمارت میں 
اپنے حجرہ کا کیا بیاں کہ یہاں
خون تھوکا گیا شرارت میں 
وہ خلا ہے کہ سوچتا ہوں میں
اس سے کیا گفتگو ہو خلوت میں 
زندگی کس طرح بسر ہو گی
دل نہیں لگ رہا محبت میں 

 

حال یہ ہے کہ خواہش

حال یہ ہے کہ خواہش، پرسشِ حال بھی نہیں
اس کا خیال بھی نہیں اپنا خیال بھی نہیں 
اے شجرِ حیاتِ شوق، ایسی خزاں رسیدگی!
پوششِ برگ و گل تع کیا جسم پہ چھال بھی نہیں 
مجھ میں وہ شخص ہو چکا جس کا کوئی حساب تھا
سود ہے کیا، زیاں ہے کیا، اس کا سوال بھی نہیں 
مست ہیں اپنے حال میں دل زدگان و دلبراں
صلح و سلام تو کجا، بحث و جدال بھی نہیں 
جو مرا حوصلہ تو دیکھ، داد تو دے کہ اب مجھے
شوقِ کمال بھی نہیں، خوفِ زوال بھی نہیں 
خیمہ گہ نگاہ کو لوٹ لیا گیا ہے کیا؟
آج افق کے دوش پر گرد کی شال بھی نہیں 
اف یہ فضا سے احتیاط، تا کہیں اڑ نہ جائیں ہم
بادِ جنوب بھی نہیں، بادِ شمال بھی نہیں 
وجہ معاشِ بے دلاں، یاس ہے اب مگر کہاں
اس کے درود کا گماں، فرضِ محال بھی نہیں 
غارتِ روز و شب کو دیکھ، وقت کا یہ غضب تو دیکھ
کل تو نڈھال بھی تھا میں، آج نڈھال بھی نہیں 
میرے زبان و ذات کا ہے یہ معاملہ کہ اب
صبحِ فراق بھی نہیں، شامِ وصال بھی نہیں 
پہلے ہمارے ذہن میں حسن کی اک مثال تھی
اب تو ہمارے ذہن میں کوئی مثال بھی نہیں 
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں 

 

رامش گروں سے داد طلب انجمن میں تھی


رامش گروں سے داد طلب انجمن میں تھی
وہ حالت سکوت جو اس کے سخن میں تھی 
تھے دن عجب وہ کشمکش انتخاب کے
اک بات یاسمیں میں تھی اک یاسمن میں تھی 
رم خوردگی میں اپنے غزال ختن تھے ہم
یہ جب کا ذکر ہے کہ غزالہ ختم میں تھی 
محمل کے ساتھ ساتھ میں آ تو گیا مگر
وہ بات شہر میں تو نہیں ہے جو بن میں تھی 
کیوں کہ سماعتوں کو خنک عیش کر گئی
وہ تند شعلگی جو نوا کے بدن میں تھی 
خوباں کہاں تھے نکتہ خوبی سے با خبر
یہ اہلِ فن کی بات تھی اور اہلِ فن میں تھی 
یاد آ رہی ہے پھر تری فرمائشِ سخن
وہ نغمگی کہاں مری عرضِ سخن میں تھی 
آشوبناک تھی نگہِ اوّلینِ شوق
صبحِ وصال کی سی تھکن اس بدن میں تھی 
پہنچی ہے جب ہماری تباہی کی داستاں
عذرا وطن میں تھی نہ عنیزہ وطن میں تھی 
میں اور پاسِ وضعِ خرد، کیا ہوا مجھے؟
میری تو آن ہی مرے دیوانہ پن میں تھی 
انکار ہے تو قیمتِ انکار کچھ بھی ہو
یزداں سے پوچھنا یہ ادا اہرمن میں تھی 

 

ہے عجیب رنگ کی داستاں


ہے عجیب رنگ کی داستاں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
سو ہیں اب کہاں؟ مگر اب کہاں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں 
نہ یقیں ہیں اب، نہ گماں ہیں اب، سو کہاں تھے جب سو کہاں ہیں اب
وہ یقیں یقیں، وہ گماں گماں،گئی پل کا تو، گئی پل کا میں 
مری جاں وہ پل جو گئی نکل، کوئی پل تھی وہ کہ ازل، ازل
سو گزشتگی میں ہیں بے کراں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں 
وہی کارواں ہے کہ ہے رواں وہی وصل و فصل ہیں درمیاں
ہیں غبارِ رفتہءِ کارواں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں 
تو مرے بدن سے جھلک بھی لے ، میں تیرے بدن سے مہک بھی لوں
ہمہ نارسائی ہیں جانِ جاں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں 
گلہ ِ فراق تو کیوں بھلا طلبِ وصال تو کیا بھلا
کسی آگ کا تھے بس اک دھواں، گئی پل کا تو ، گئی پل کا میں 

 

ہار جا اے نگاہِ ناکارہ


ہار جا اے نگاہِ ناکارہ
گُم افق میں ہوا وہ طیارہ 
آہ وہ محملِ فضا پرواز
چاند کو لے گیا ہے سیارہ 
صبح اُس کو وداع کر کے میں
نصف شب تک پھرا ہوں آوارہ 
سانس کیا ہیں کے میرے سینے میں
ہر نفس چل رہا ہے اِک آرا 
کچھ کہا بھی جو اُس سے حال تو کب؟
جب تلافی رہی نہ کفارہ 
کیا تھا آخر مِرا وہ عشقِ عجیب
عشق کا خوں کہ عشقِ خوں خوارہ 
ناز کو جس نے اپنا حق سمجھا
کیا تمھیں یاد ہے وہ بے چارہ 
چاند ہے آج کچھ نڈھال نڈھال
کیا بہت تھک گیا ہے ہرکارہ 
اِس مسلسل شبِ جُدائی میں
خون تھوکا گیا ہے مہ پارہ 
ہو گئی ہے میرے سفر کی سحر
کوچ کا بج رہا ہے نقارہ 

 

زیاں


تیرا زیاں رہا ہوں میں، اپنا زیاں رہوں گا میں
تلخ ہے میری زندگی، تلخ زباں رہوں گا میں 
تیرے حضور، تجھ سے دور، جلتی رہے گی زندگی
شعلہ بجاں رہا ہوں میں، شعلہ بجاں رہوں گا میں 
تجھ کو تباہ کر گئے، تیری وفا کے ولولے
یہ مرا غم ہے میرا غم، اس میں تپاں رہوں گا میں 
حیف نہیں ہے دیکھ بھال میری نصیب میں ترے
یعنی متاعِ بردہ ءِ کم نظراں رہوں گا میں 
جاز کی دھن اداس ہے، دل بھی بہت اداس ہے
جانے کہاں بسے گی تو، جانے کہاں رہوں گا میں 
ہم ہیں جدا جدا مگر، فن کی بساطِ رنگ پر
رقص کناں رہے گی تو، زمزمہ خواں رہوں گا میں 

 

بے دلی


بے دِلی کیا یونہی دن گزر جائیں گے
صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے 
رقص ہے رنگ پر رنگ ہم رقص ہیں
سب بچھڑ جائیں گے سب بکھر جائیں گے 
یہ خراباتیانِ خرد باختہ
صبح ہوتے ہی سب کام پر جائیں گے 
کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جُو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے 
ہے غنیمت کہ اسرار ہستی سے ہم
بے خبر آئے ہیں بے خبر جائیں گے 

 

چپ


تو بھی چپ ہے، میں بھی چپ ہوں، یہ کیسی تنہائی ہے
تیرے ساتھ تری یاد آئی، تو کیا سچ مچ آئی ہے 
شاید وہ دن پہلا دن تھا، پلکیں بوجھل ہونے کا
مجھ کو دیکھتے ہی اس کی انگڑائی شرمائی ہے 
اس دن پہلی بار ہوا تھا مجھ کو رفاقت کا احساس
جب اس کے ملبوس کی خوشبو گھر پہنچانے آئی ہے 
حسن سے عرضِ شوق نہ کرنا حسن کو زک پہنچانا ہے
ہم نے عرضِ شوق نہ کر کے حسن کو زک پہنچائی ہے 
ہم کو اور تو کچھ نہیں سوجھا البتہ اس کے دل میں
سوزِ رقابت پیدا کر کے اس کی نیند اڑائی ہے 
ہم دونوں مل کر بھی دلوں کی تنہائی میں بھٹکیں گے
پاگل کچھ تو سوچ یہ تو نے کیسی شکل بنائی ہے 
عشقِ پیچاں کی صندل پر جانے کس دن بیل چڑھے
کیاری میں پانی ٹھیرا ہے، دیواروں پر کائی ہے 
حسن کے جانے کتنے چہرے، حسن کے جانے کتنے نام
عشق کا پیشہ حسن پرستی، عشق بڑا ہرجائی ہے 
آج بہت دن بعد میں اپنے کمرے تک آ نکلا تھا
جوں ہی دروازہ کھولا ہے اس کی خوشبو آئی ہے 
ایک تو اتنا حبس ہے پھر میں سانسیں روک کے بیٹھا ہوں
ویرانی نے جھاڑو دے کر گھر کی دھول اڑائی ہے 

 

خوب ہے شوق کا یہ پہلو بھی

خوب ہے شوق کا یہ پہلو بھی
میں بھی برباد ہو گیا، تو بھی 
حسنِ مغموم، تمکنت میں تری
فرق آیا نہ یک سرِ مو بھی 
یہ نہ سوچا تھا زیرِ سایہ زلف
کہ بچھڑ جائے گی یہ خوشبو بھی 
حسن کہتا تھا چھیڑنے والے
چھیڑنا ہی تو بس نہیں چھو بھی 
ہائے اس کا وہ موج خیز بدن
میں تو پیاسا رہا لبِ جُو بھی 
یاد آتے ہیں معجزے اپنے
اور اس کے بدن کا جادو بھی 
یاسمیں! اس کی خاص محرمِ راز
یاد آیا کرے گی اب تو بھی 
یاد سے اس کی ہے مرا پرہیز
اے صبا اب نہ آئیو تو بھی 
ہیں یہی جون ایلیا جو کبھی
سخت مغرور بھی تھے، بد خو بھی 

 

جی ہی جی میں وہ جل رہی ہو گی

جی ہی جی میں وہ جل رہی ہو گی
چاندنی میں ٹہل رہی ہو گی 
چاند نے تان لی ہے چادرِ ابر
اب وہ کپڑے بدل رہی ہو گی 
سو گئی ہو گی وہ شفق اندام
سبز قندیل جل رہی ہو گی 
سرخ اور سبز وادیوں کی طرف
وہ مرے ساتھ چل رہی ہو گی 
چڑھتے چڑھتے کسی پہاڑی پر
اب وہ کروٹ بدل رہی ہو گی 
پیڑ کی چھال سے رگڑ کھا کر
وہ تنے سے پھسل رہی ہو گی 
نیلگوں جھیل ناف تک پہنے
صندلیں جسم مل رہی ہو گی 
ہو کے وہ خوابِ عیش سے بیدار
کتنی ہی دیر شل رہی ہو گی 

 

ایذا دہی کی داد جو پاتا رہا ہوں میں


ایذا دہی کی داد جو پاتا رہا ہوں میں
ہر ناز آفریں کو ستاتا رہا ہوں میں 
اے خوش خرام! پاؤں کے چھالے تو گن ذرا
تجھ کو کہاں کہاں نہ پھراتا رہا ہوں میں 
تجھ کو خبر نہیں کہ ترا حال دیکھ کر
اکثر ترا مذاق اڑاتا رہا ہوں میں 
جس دن سے اعتماد میں آیا ترا شباب
اس دن سے تجھ پہ ظلم ہی ڈھاتا رہا ہوں میں 
بیدار کر کے تیرے بدن کی خود آ گہی
تیرے بدن کی عمر گھٹاتا رہا ہوں میں 
اک سطر بھی کبھی نہ لکھی میں نے تیرے نام
پاگل تجھی کو یاد بھی آتا رہا ہوں میں 
شاید مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی
لیکن یقین سب کو دلاتا رہا ہوں میں 
اک حسنِ بے مثال کی تمثیل کے لئے
پرچھائیوں پہ رنگ گراتا رہا ہوں میں 
اپنا مثالیہ مجھے اب تک نہ مل سکا
ذروں کو آفتاب بتاتا رہا ہوں میں 
کیا مل گیا ضمیرِ ہنر بیچ کر مجھے
اتنا کہ صرف کام چلاتا رہا ہوں میں 
کل دوپہر عجیب سی اک بے دلی رہی
بس تیلیاں جلا کے بجھاتا رہا ہوں میں

 

افسانہ ساز جس کا فراق و وصال تھا


افسانہ ساز جس کا فراق و وصال تھا
شاید وہ میرا خواب تھا شاید خیال تھا 
یادش بخیر زخمِ تمنا کی فصلِ رنگ 
بعد اس کے ہم تھے اور غمِ اندمال تھا 
دشتِ گُماں میں ناقہ ء لیلی تھا گرم خیز 
شہرِ زیاں میں قیس اسیرِ عیال تھا 
خونِ جگر کھپا کے مصور نے یک نظر 
دیکھا تو اک مُرقعِ بے خدوخال تھا 
کل شورِ عرض گاہِ سوال و جواب میں
جو بھی خموش تھا وہ عجب باکمال تھا 
ہم ایک بے گزشتِ زمانہ زمانے میں
تھے حال مستِ حال جو ہر دم بحال تھا 
پُرحال تھا وہ شب میرے آغوش میں مگر 
اُس حال میں بھی اُس کا تقرب محال تھا 
تھا مست اُس کے ناف پیالے کا میرا دل 
اُس لب کی آرزو میں میرا رنگ لال تھا 
اُس کے عروج کی تھی بہت آرزو ہمیں 
جس کے عروج ہی میں ہمارا زوال تھا 
اب کیا حسابِ رفتہ و آئیندہ ء گُماں 
اک لمحہ تھا جو روز و شب و ماہ و سال تھا 
کل ایک قصرِ عیش میں بزمِ سُخن تھی جون 
جو کچھ بھی تھا وہاں وہ غریبوں کا مال تھا 

 

شاید



عشق سمجھے تھے جس کو وہ شاید
تھا بس اک نارسائی کا رشتہ
میرے اور اُس کے درمیاں نکلا
عمر بھر کی جدائی کا رشتہ 
 

رمزِ ہمیشہ


رمزِ ہمیشہ 

اے خدا، اے خدایاں خدا، اے خداوند
میں تجھ سے معمور تھا 
خود سے مسحور تھا
اور ایک میں ہی کیا
نیلگوں آسمانوں سے دیوان خانے کی 
سرسبز 
نکہت نفس 
کیاریوں تک کا سارا سماں 
تجھ سے معمور تھا
خود سے مسحور تھا
شہر میں معجزوں اور موسم کے میووں کی بہتات تھی
اور میووںکی چاہے کسی فصل میں
کچھ بھی کمی ہوئی ہو 
مگر معجزے روز افزوں تھے 
ایمان کا ابرِ باذل
دلوں کی زراعت کو شاداب رکھتا تھا
شام و سحر اپنے مرموز آغاز و انجام کے 
حسن میں
محو رہتے تھے
وہ دور اپنے تحیر کی خر سند حالت میں
اور اپنے ابہام کی دست و دل باز سمتوں کے
پندارہ پرور مرامیز کی ہر علامت میں
اک خواب کا خواب تھا 
خواب کی روبروئی تھی
اور چار سوئی تھی
ہم خواب تھے اور خوابوں میں مشغول تھے 

ایک دن
شہر کے ایک شیوا بیاں اور خوش لہجہ نثار
دیوان خانے میں تشریف لائے 
جہاں ابنِ سکیت کا
تذکرہ ہو رہا تھا
ذرا دیر کے بعد
اس تذکرے کے تسلسل مین وقفہ سا پیدا ہوا
پس وہ بابا کی جانب نظر کر کے گویا ہوئے
آپ حضرات نے آج کا معجزہ سن لیا؟
ان پہ اک حالت گریہ طاری تھی
پھر وہ گلوگیر آواز میں
ساری روداد اس معجزے کی سنانے لگے
جو عزا خانہ شاہ مسکین میں
دیکھ کر آئے تھے 

مجھ کو ان کا بیاں آج بھی یاد ہے
اک جواںحالت جاںکنی میں 
ضریح مقدس کے محضر میں لایا گیا
اور اس کے علم کے پھریرے کی
انفاس پرور ہوا دی گئی
اور پھر یہ ہوا
وہ جواں اس طرح چونک اٹھا 
جیسے اب تک وہ سویا ہوا تھا 
مگر اب کسی کے جگانے سے 
یک بارگی جاگ اٹھا ہے 

اسے اک نئی زندگی مل گئی تھی
وہاں کوئی بھی شخص ایسا نہیں تھا
جسے اس پہ حیرت ہوئی ہو
کہ یہ بات تو 
چھوٹے حضرت کے صدقے میں ہونی ہی تھی 

وہ خجستہ وہ خوش ماجرا روز و شب
روز و شب ہی نہ تھے
اک زمانِ الوہی کا انعام جاری تھے
اور ایک رمزِ ہمیشہ کا
سرچشمہ جاوداں تھے
وہ سر چشمہ جاوداں جس کی تاثیر سے
اپنا احساسِ ذات ایک الہام تھا
جس سے روحِ در و بام سرشار تھی 
اس فضا میں کوئی شے فقط شے نہ تھی 

ایک معنی تھی
معنی کا فیضان تھی 
کتنا شفاف تھا روح کا آسماں 
کتنی شاداب تھی آگہی کی زمیں

ہم کو اپنا نسب نامہ تا آدمِ بوالبشر یاد تھا 
قبلِ تاریخ کی ساری تاریخ ذہنوںمیں محفوض تھی
ہم کو صبحِ تخستینِ ایجاد سے
اپنے اجداد تک
اپنے دالان و در
ان کی بنیاد تک
ساری تفصیلِ کون و مکاں یاد تھی
ہم سب اپنے یقین و گماں کے فرحناک
اسرار میں 
شاد و خرم تھے
خوش بین و خرسند تھے
اے خداوند! میں تجھ سے معمور تھا 

اور پھر
عقل انگیزہ جو درمیاں آگئی اے 
خدا ایک سفاک پرخاش و پیکار تھی
جو مرے اور مرے درمیاں چھڑ گئی تھی
مرے زہن میں نا سزا ،جاں گزا آگہی کا جہنم بھڑکنے لگا 

اور پھر
وہ زمانہ بھی آیا کہ جب
میں ترے باب میں مضمحل ہوگیا
بادِ یغما گرِ نفی و انکار نے
ان فرحناک اسرار کے
عالمِ خواب آگیں کو زیر و زبر کر دیا
وہ خجستہ وہ خوش ماجرا روز و شب
وہم و خواب و خیال و گماں ہو گئے
وہ معانی وہ احوال جاں آفریں
بے اماںہو گئے
فیضِ توفیق کی
وہ رسد رک گئی
وہ یقیں کے افق 
بے نشاں ہو گئے
جو بھی آسان تر تھا وہ دشوار تر ہو گیا 

میری حالت یہ تھی 
جیسے میں اک سفر کردہ دور افتاد ہوں
اور ایقانِ فرخندہ و برگزیدہ کی وہ سر زمیں
میرے لمسِ کفِ پا سے
قرنوںکی دوری میں
گم ہو چکی ہے
میں تنہا ہوں 
بے چارہ ہوں 

جب میں دائیں طرف دیکھتا تھا 
تو کیا دیکھتا تھا
کہ انجیر و شہتوت پژمردہ ہیں
جب میں بائیں طرف دیکھتا تھا
تو کیا دیکھتا تھا 
کہ سارے شمالی پرندے
جنوبی افق کے زبونی زدہ
زرد ابہام میں 
پھڑپھڑاتے ہوئے
بے نشاں ہوتے جاتے ہیں 

تب میں نے گزرے زمانوںمیں
اور آنے والے زمانوں میں فریاد کی
اے خدا! 
اے خداوند! 
اب مرا باطنِ ذات ویران ہے
اب درونِ دروں
اور بیرونِ بیروں
فقط اک خلا ہے
فقط ایک لا
دہر دہر اور دیوم دیوم میں
اب عدم در عدم کے سوا کچھ نہیں
اے خداوند تو کیا ہوا 
مجھ کو تیرے نہ ہونے کی عادت نہیں
وائے برحالِ ژرفا و بالا و پہنا!
دریغا! سبب ہر مسبب سے اپنے جدا ہوگیا

حسرتا! کہکشاؤں کے گلوں کا چوپان کوئی نہیں 

اور پھر میں نے
موجود کے دائرے کی نہایت پہ نالہ کیا 
اے یقیں کے گماں
اے گماں کے یقیں
اے ازل آفریں
اے ابد آفریں
اے خدا الوداع
اے خدایاں خدا
الوداع، الوداع 

معمول


معمول 

جانے کب سے
مجھے یاد بھی تو نہیں جانے کب سے
ہم اک ساتھ گھر سے نکلتے ہیں
اور شام کو
ایک ہی ساتھ گھر لوٹتے ہیں
مگر ہم نے اک دوسرے سے
کبھی حال پرسی نہیں کی
نہ اک دوسرے کو 
کبھی نام لے کر مخاطب کیا
جانے ہم کون ہیں؟ 

سر زمینِ خواب و خیال


سر زمینِ خواب و خیال  
یوم پاکستان کے موقع پر 

ہم نے اے سر زمیں خواب و خیال
تجھ سے رکھا ہے شوق کو پر حال 

ہم نے تیری امید گاہوں میں
کی ہے اپنے مثالیوں کی تلاش
دل کے رنگِ خیال بندی کو
تو بھی اک بار دیکھ لے اے کاش 

ختنِ جاں! ترے غزالوں کو
ہم نے جانِ غزل بنایا ہے
ہم نے دکھ سہہ کے تیرے لمحوں کو 
جاودانِ غزل بنایا ہے 

ذکر سے ہم ترے حسینوں کے
شوخ گفتارو خوش کلام ہوئے
تیری گلیوں میں ہو کے ہم بدنام
کتنے شہروں میں نیک نام ہوئے 

حسن فردا کے خواب دیکھے ہیں
شوق نے تیری خواب گاہوں میں
ہم نے اپنا سراغ پایا ہے
تیری گلیوں میں تیری راہوں میں 

تیری راتیں ہمارے خوابوں سے
اور بھی کچھ سہانیاں ہوں گی
ہم جو باتیں جنوں میں بکتے ہیں
دیکھنا جاودانیاں ہوں گی 

ہم ہیں وہ ماجرا طلب جن کی
داستانیں زبانیاں ہوں گی
تیری محفل میں ہم نہیں ہوں گے
پر ہماری کہانیاں ہوں گی 

جو تھے دشمن تری امنگوں کے
کب انہیں بے گرفت چھوڑا ہے
ہم نے اپنے درشت لہجے سے
آمروں کا غرور توڑا ہے 

ہم تو خاطر میں بھی نہیں لاتے
اہلِ دولت کو شہر یاروں کو
ہم نوا گر ترے عوام کے ہیں
دوست رکھتے ہیں تیرے پیاروں کو 

تو ہے کاوش کا جن کی گلدستہ
ان کا نام ان کی نامداری ہو
تیرے شہروں میں اور دیاروں میں
حکم محنت کشوں کا جاری ہو 

یہ بڑی سازگار مہلت ہے
یہ زمانہ بہت غنیمت ہے 

شوق سے ولولے طلب کر لیں
جو نہ اب تک کیا وہ کر لیں 

خوش بدن! پیرہن ہو سرخ ترا
دلبرا! بانکپن ہو سرخ ترا
ہم بھی رنگیں ہوں پر توِ گل سے
جوشِ گل سے چمن ہو سرخ ترا 

تیرے صحرا بھی پر بہار رہیں
غنچہ خیز و شگوفہ کار رہیں
دل بہ دل ربطِ جاں رہے تجھ سے
صف بہ صف تیرے جاں نثار رہیں 

ہر فسانہ بہم کہا جائے
میں جو بولوں تو ہم کہا جائے 

جشن کا آسیب


جشن کا آسیب 

سکوتِ بیکراں میں سہ پہر کا چوک ویراں ہے
دکانیں بند ہیں
سارے دریچے بے تنفس ہیں
در و دیوار کہتے ہیں
یہاں سے ایک سیلِ شعلہ ہائے تُند گزرا ہے
پھر اُسکے بعد کوئی بھی نہیں آیا
خموشی کوچہ و برزن میں فریادی ہے
کوئی تو گزر جائے
کوئی آوازِ پا آئے
شمارِ لمحہ و ساعت سے بیگانہ فضا میں
اِک صدائے پرفشانی کوند اُٹھتی ہے
کوئی طائر فضا میں سایہ آسا تیر جاتا ہے
سگانِ زرد کا اِک غول اِک کوچے سے نکلا ہے
وہ تیزی سے گزر جاتے ہیں
وہ اور اُن کے سایے بھی
سکوتِ بیکراں میں سہ پہر کا چوک ویراں ہے