ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں ریٹیل یونٹس کی تعداد پچیس لاکھ کے قریب ہے جن میں سے 90 فیصد سے زائد رجسٹرڈ ہی نہیں۔ یعنی وہ جتنا بھی کاروبار کرتے ہیں، اس کا نہ تو کوئی ریکارڈ موجود ہے اور نہ ہی حکومت کو ٹیکس جاتا ہے۔
تاجر پچھلی چار دہائیوں سے حکومتوں کے لاڈلے رہے کیونکہ ان کی سرپرستی نوازشریف جیسا چور کرتا آیا تھا، جس نے نہ خود کبھی انکم ٹیکس ادا کیا اور نہ ہی کبھی تاجروں کو ٹیکس دینے پر مجبور کیا۔
تاجروں کی آج کی ہڑتال کے کچھ مطالبات ایسے ہیں کہ جنہیں سن کر کوئی بھی ہوشمند انسان اپنا سر پیٹ لے۔
تاجر کہتے ہیں کہ سالانہ بارہ لاکھ روپے کی انکم رکھنے والے تاجروں کو انکم ٹیکس سے مستثنی قرار دیا جائے۔ کیوں؟ جب اس ملک میں پندرہ ہزار ماہانہ کمانے والا ایک ملازم اپنی تنخواہ سے ٹیکس کٹواتا ہے تو ماہانہ ایک لاکھ کی آمدن رکھنے والے تاجر کو کیا مسئلہ ہے کہ اس سے ٹیکس نہ لیا جائے؟
ایک اور مطالبہ یہ ہے کہ نان رجسٹرڈ بزنس کیلئے ہول سیلر سے پرچیز کرنے پر شناختی کارڈ کا نمبر لکھوانے کی شرط ختم کی جائے۔ یاد رہے کہ رجسٹرڈ بزنس کیلئے این ٹی این لکھا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ سیلز انوائس پر شناختی کارڈ نمبر لکھوانے میں کیا مسئلہ ہے؟ کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ ان کی داڑھی میں تنکا ہے، اسی لئے یہ اپنا کسی قسم کا ریکارڈ حکومت کو نہیں دینا چاہتے۔
لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ کے تاجروں کو دیکھیں۔ ایک کھوکھا چلانے والا بھی شادمان، گلبرگ جیسے علاقوں میں کروڑوں کی کوٹھی میں رہائش پذیر ہوگا، اس کے گھر کے ہر ایک کمرے میں اے سی اور پورچ میں تین تین گاڑیاں کھڑی ہوں گی، ماتھے پر سجدے کا نشان، ہر سال رمضان میں ایک عدد عمرہ اور بڑی عید پر چاربکرے اور ایک گائے کی قربانی کرے گا لیکن جب بات ٹیکس کی آئے گی تو ایسے ظاہر کرے گا جیسے اس سے بڑا مسکین اس دنیا میں کوئی نہیں۔
ان کی دکانوں پر اے سی چلتے ہیں لیکن یہ چوری کی بجلی استعمال کرتے ہیں تاکہ ان کا بل سالابہ چھ لاکھ کی بریکٹ کے اندر اندر رہے۔ کسٹمرز کو کچی رسید پر مال بیچتے ہیں اور جو ٹیکس وصول کرتے ہیں، اسے اپنی جیب میں ڈال لیتے ہیں۔
حکومت کو چاہیئے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے، ان تاجروں کی بدمعاشی نہ چلنے دے۔ جتنے دن چاہے ہڑتال کریں، ان کے مطالبات مت مانے جائیں۔ ایک ہفتے کی مہلت دے کر ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ایمرجنسی نافذ کرے اور تمام تاجروں کی دکانوں کا کنٹرول سرکار کے ہاتھ میں لے لے۔
معیشت پہلے ہی تباہ ہوچکی، اس کو ٹھیک کرنے کیلئے بڑے اور دلیر اقدامات کرنا ہونگے۔ اس دوران اگر ان کی چیخیں نکلتی ہیں تو نکلنے دیں، بصورت دیگر ملک ویسے ہی چلتا رہے گا جیسے پچھلے ستر برسوں سے چلتا آیا ہے!!!
No comments:
Post a Comment