میں اس کے ہونٹ بہت پیاس بھر کے دیکھتا تھا
کہ ایسے دیکھتا تھا جیسے مر کے دیکھتا تھا
اس ایک پیڑ کی بھی موت ہو گئی شاید
جسے میں روز ادھر سے گزر کے دیکھتا تھا
وہ حسنِ خاص تھی اور ایسی خاص تھی کہ اُسے
فلک کا چاند، زمیں سے ابھر کے دیکھتا تھا
جو لوگ ہجر میں چیزوں کے ساتھ کرتے ہیں
وہ تجربات بھی میں خود پہ کر کے دیکھتا تھا!
اجڑ کے دیکھ رہا ہوں عبؔید جس کی طرف !
وہ دن بھی تھے کہ میں اُس کو سنور کے دیکھتا تھا
عبیدالرّحمٰن عاجز
No comments:
Post a Comment