Wednesday, 17 July 2019

سزا


سزا 
ہر بار میرے سامنے آتی رہی ہو تم
ہر بار تم سے مل کے بچھڑتا رہا ہوں میں
تم کون ہو یہ خود بھی نہیں جانتی ہو تم
میں کون ہوں یہ خود بھی نہیں جانتا ہوں میں
تم مجھ کو جان کر ہی پڑی ہو عذاب میں
اور اِس طرح خود اپنی سزا بن گیا ہوں میں 

تم جس زمین پر ہو میں اس کا خدا نہیں
پس سر بسر اذّیت و آزار ہی رہو
بیزار ہو گئی ہو بہت زندگی سے تم
جب بس میں کچھ نہیں ہے تو بیزار ہی رہو
تم کو یہاں کے سایہ و پرتو سے کیا غرض
تم اپنے حق میں بیچ کی دیوار ہی رہو 

میں ابتدائے عشق سے بے مہر ہی رہا
تم انتہائے عشق کا معیار ہی رہو
تم خون تھوکتی ہو یہ سن کر خوشی ہوئی
اس رنگ اس ادا میں بھی پُرکار ہی رہو 

میں نے یہ کب کہا تھا محبت میں ہے نجات
میں نے یہ کب کہا تھا وفادار ہی رہو
اپنی متاعِ ناز لُٹا کر میرے لیے 
بازارِ التفات میں نادار ہی رہو 

جب میں تمہیں نشاطِ محبت نہ دے سکا
غم میں کبھی سکونِ رفاقت نہ دے سکا
جب میرے سب چراغِ تمنا ہوا کے ہیں
جب میرے سارے خواب کسی بے وفا کے ہیں
پھر مجھ کو چاہنے کا تمہیں کوئی حق نہیں
تنہا کراہنے کا تمہیں کوئی حق نہیں 

No comments:

Post a Comment