کشتی چلا رہا ہے مگر کس ادا کے ساتھ
ہم بھی نہ ڈُوب جائیں کہیں ناخدا کے ساتھ
پھیلی ہے جب سے خضر و سکندر کی داستاں
ہر با وفا کا ربط ہے اک بے وفا کے ساتھ
شیخ اور بہشت ، کتنے تعجب کی بات ہے
یارب یہ ظلم ' خلد کی آب و ہوا کے ساتھ
مہماں میزباں ہی کو بہکا کے لے اُڑا
خوشبوئے گل بھی گھوم رہی ہے صبا کے ساتھ
پڑھتا نماز میں بھی ہوں پر اتفاق سے
اٹھتا ہوں نصف رات کو دل کی صدا کے ساتھ
اے قلبِ نامراد ! مِرا مشورہ یہ ہے
اِک دن تو آپ خود بھی چلا جا دُعا کے ساتھ
کل دیکھا جاےٓ گا مگر آج اس نے خلق کو
ٹالا ہے خوب وعدہٓ روزِ جزا کے ساتھ
بدتر ہے گمرہی سے اطاعت کا احترام
اے ہم نفس الجھ نہ پڑیں رہنما کے ساتھ
دل کی طلب پڑی ہے تو آیا ہے یاد اب
وہ تو چلا گیا تھا کسی دِلرُبا کے ساتھ
پیرِ مغاں سے ہم کو کوئی بَیر تو نہیں
تھوڑا سا اختلاف ہے مردِ خدا کے ساتھ
کہتے ہیں جس کو حشر ، اگر ہے ، تو لازماً
اٹھے گا وہ بھی آپ کی آواز پا کے ساتھ
محشر کا خیر کچھ بھی نتیجہ ہو اے عدمؔ
کچھ گفتگو تو کھل کے کریں گے خدا کے
ساتھ
No comments:
Post a Comment