Tuesday, 23 July 2019

گۓ دنوں کے سورج


گئے دنوں کے سورج

امیر شریعتؒ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کمرہ عدالت میں داخل ہو ئے۔
جسٹس منیر بغض و حسد سے بھرا ہوا، غصے سے لال پیلا،
گردن تنی ہوئی اور
تکبر و غرور کا پیکر
ناہنجار بنا کرسی پر بیٹھا تھا۔
مردِ مومن کے چہرۂ انور پر نگاہ پڑی تو
اسکی آنکھیں جھک گئیں۔
جسٹس منیر دوسری مرتبہ آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ کر سکا۔
کارروائی شروع ہوئی۔
امیر شریعتؒ نے اپنا تحریری بیان عدالت میں پیش کیا۔
جسٹس منیر نے ایک نظر بیان کو دیکھا جسے اس نے ’’منیر انکوائری رپورٹ‘‘
میں شامل نہیں کیا اور پھر اپنے مخصوص چبھتے ہوئے انداز میں سوالات کا
آغاز کر دیا۔
جسٹس منیر:
ہندوستان میں اسوقت کتنےمسلمان ہیں؟
امیر شریعتؒ: سوال غیر متعلق ہے،
مجھ سے پاکستان کے مسلمانوں کے بارے پوچھیں۔
جسٹس منیر: (تمسخر آمیز لہجے میں) ہندوستان اور پاکستان میں جنگ چھڑ جائے تو ہندوستان کے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟
امیر شریعتؒ: ہندوستان میں علما موجود ہیں، وہ ھی بتائینگے۔
جسٹس منیر: (طنز کرتے ہوئے)
آپ بتا دیں؟
امیر شریعتؒ: پاکستان کے بارے میں پوچھیں،
یہاں کے مسلمانوں کو کیا کرنا ہے؟
جسٹس منیر: مسلمان کی تعریف کیا ہے؟
امیر شریعتؒ: اسلام میں داخل ہونے اور مسلمان کہلانے کے لیے صرف کلمہ شہادت کا اقرار و اعلان ہی کافی ہے۔
لیکن اسلام سے خارج ہونے کے ہزاروں روزن ہیں۔
ضروریاتِ دین میں کسی ایک کا انکار
کفر کے ماسوا کچھ نہیں۔
اللہ تعالیٰ کی صفات عالیہ میں سے کسی ایک کو بھی انسانوں میں مانا تو مشرک،
قرآن کریم کی کسی ایک آیت یا جملہ کا انکار کیا تو کافر،
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب ختم نبوت کے بعد کسی انسان کو کسی بھی حیثیت میں نبی مانا تو مرتد۔
جسٹس منیر: (قادیانی وکیل کیطرف اشارہ کرتے ہوئے)
ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟
امیر شریعتؒ: خیال نہیں عقیدہ۔
جو ان کے بڑوں کے بارے میں ہے۔
جسٹس منیر: (بدتمیزی کے انداز میں)
آپ نے مرزا قادیانی کو کافر کہا ہے؟
امیر شریعتؒ:
میں اسی سوال کا آرزو مند تھا۔
کوئی بیس برس ادھر کی بات ہے،
یہی عدالت تھی جہاں آپ بیٹھے ہیں،
یہاں چیف جسٹس، مسٹر جسٹس ڈگلس ینگ تھے۔
اور جہاں مسٹر کیانی بیٹھے ہیں،
یہاں رائے بہادر جسٹس رام لال تھے۔
یہی سوال انھوں نے مجھ سے پوچھا تھا۔ وہی جواب آج دہراتا ہوں۔
میں نے ایک بار نہیں ہزاروں مرتبہ،
مرزا کو کافر کہا ہے،
کافر کہتا ہوں
اور جب تک زندہ ہوں گا کافر کہتا رہونگا۔ یہ میرا ایمان و عقیدہ ہے اور اسی پر مرنا چاہتا ہوں۔
مرزا قادیانی اور اس کی ذریت کافر و مرتد ہے۔ مسیلمہ کذاب اور ایسے ہی دیگر جھوٹوں کو دعویٰ نبوت کے جرم میں قتل کیا گیا۔
جسٹس منیر: غصے سے بے قابو ہو کر،
دانت پیستے ہوئے
اگر غلام احمد قادیانی آپ کے سامنے یہ دعویٰ کرتا تو آپ اسے قتل کر دیتے؟
امیر شریعتؒ: میرے سامنے اب کوئی
دعویٰ کر کے دیکھ لے!
حاضرین عدالت: نعرۂ تکبیر، اللہ اکبر،
ختم نبوت… زندہ باد،
مرزائیت… مردہ باد…
کمرۂ عدالت لرز گیا۔
جسٹس منیر: بوکھلا کر
توہین عدالت…!!
امیر شریعتؒ: جلال میں آ کر
توہین رسالت…!!
جسٹس منیر …
دم بخود، خاموش،
مبہوت،
حواس باختہ،
چہرہ زرد،
ہوش عنقا…
پیشانی سے پسینہ پونچھنے لگا۔
’’عدالت‘‘ امیر شریعت کی جرأت ایمانی اور جذبۂ حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم دیکھکر سکتے میں آ چکی تھی۔
امیر شریعتؒ: گرج دار آواز میں کچھ اور…؟
جسٹس منیر: پریشانی میں بڑبڑاتے ہوئے میرا خیال ہے ہمیں مزید کچھ بھی نہیں پوچھنا!
عدالت برخواست ہو جاتی ہے۔
وہ صداقت جس کی بیباکی
تھی حسرت آفریں .......
سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم

No comments:

Post a Comment