*# اخبار میں اشتہار پڑھا:*
# *"مکان براۓ فروخت"*
# میں نے پتہ نوٹ کر کےپہلے مکان کا بیرونی جائزہ لیا اور پھر ہمراہ ایک پارٹی کو لے کر گیا جو مطلوبہ مکان خریدنا چاہتی تھی جیسے ھی ہم لوگ اس گھر کے دروازے پر پہنچے ایک عمر رسیدہ بزرگ نے ہمیں اندر آنے کی دعوت دی اور ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کا کہا۔۔۔ کچھ دیر بعد ایک عمر رسیدہ خاتون خانہ چاۓ کی ٹرالی سجاۓ ہوۓ ڈرائنگ روم میں آپہنچیں جس پر چاۓ کے علاوہ گاجر کا حلوہ ،نمکو ،بسکٹ اور کچھ مٹھائی بھی رکھی ہوئی تھی۔ اتنے زیادہ لوازمات دیکھ کرایسا لگتا تھا گویا ہم اجنبی نہیں بلکہ ان کے خاص مہمان ھوں۔
# وہ دونوں میاں بیوی ہمارے سامنے بیٹھ گئے اور ہمیں چاۓ نوش کرنے کی دعوت دی۔ مجھے احساس ہوا کہ شاید بزرگ میاں بیوی کو کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔
# میں نے ان سے کہا کہ ہم مکان کی بات چیت کرنے آئے ہیں اور ہماری آج پہلی ملاقات ہے پھرآپ نے اتنا تکلف کیوں کیا؟
# بابا جی نے دھیمے لہجے میں کہا ’’بیٹا آپ چاۓ نوش فرمائیں مکان کی بات بعد میں ہوتی رہے گی‘‘ ہم سب لوگ چاۓ سے لطف اندوز ہوتے رھے اور ساتھ کچھ گفتگو کرتے رھے۔ وہ دونوں کافی خوش مزاج لوگ تھے اور بہت اچھی گفتگو کرتے تھے۔ چائے کے بعد بھی جب کچھ دیر تک انہوں نے مکان کا تذکرہ نہ چھیڑا تو میں نے خود ہی بابا جی سے پوچھا ’’اب مکان کی بات کریں؟‘‘
# جی جی آئیے۔۔۔ تشریف لائیے آپ کو مکان اندر سے چیک کروادوں۔۔۔‘‘ انہوں نے تفصیل سے ہمیں پورا مکان دکھایا،
# ’’یہ مکان آپ کتنے میں دیں گے؟‘‘ میرے سوال پربابا جی نے کہا مکان کی قیمت پچاس لاکھ روپے ہے۔ میں حیران ہو کر بولا ’’بابا جی آپ کا مکان تو تیس لاکھ روپے کا بھی نہیں اور آپ پچاس لاکھ مانگ رہے ہیں؟ اس سے پہلے آپ نے ہماری پرتکلف مہمانداری کر کے ہم پراحسان کیا ہے اوراب مکان کی قیمت بھی مارکیٹ سے بہت زیادہ مانگی ہے۔ لہٰذا ہمارا سودا نہیں ہو سکتا‘‘ تو بابا جی نے کہا ’’کوئی بات نہیں بیٹا یہ کھانا پینا کچھ نہیں انسان اپنے نصیب کا کھاتا ہے۔‘‘ خیر ہم دو تین گھنٹے وہاں گزار کر خالی ہاتھ واپس لوٹ آئے۔
# دو مہینے بعد میں نے اخبار میں پھر سے اسی مکان کی فروخت کا اشتہار پڑھا اور تعجب ہوا کہ ابھی تک بابا جی کا مکان نہیں بِکا۔ دوبارہ فون پر ان سے رابطہ کرکے ایک دوسری پارٹی کو ساتھ لے کر بابا جی کا مکان دیکھنے چلا گیا۔
# جیسےہی دروازہ کھٹکھٹایا تو بابا جی نے ایک بار پھر پُر تپاک طریقے سے اندر آنے کی دعوت دی اور ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور کچھ دیر بعد وہی خاتون خانہ اسی طرح لوازمات سے بھری چاۓ کی ٹرالی لیے ہماری طرف آ رہی تھیں۔۔۔
# میں نے بے ساختہ کہا‘ ’’بابا جی آپ ہر آنے والے کے لیے اتنا تکلف کیوں کرتے ہیں؟ آپ مکان کتنے میں بیچنا چاھتے ہیں۔۔۔؟‘‘
# بابا جی نے وہی جواب دیا ’’آپ چاۓ نوش فرمائیں مکان کی بات بعد میں کرتے ہیں۔ پہلے کی طرح اس بار بھی چاۓ وغیرہ کے بعد کافی وقت ان سے گفتگو میں گزر گیا اور جب میں نے بابا جی سے مکان کی بات کرنا چاہی تو بابا جی نے پھر پچاس لاکھ کی ڈیمانڈ کر دی۔ مجھے کچھ غصہ بھی آیا اور حیرت بھی ہوئی کہ یہ بابا جی دماغی مریض لگتےہیں جو ہر آنے والے پر ہزار بارہ سو روپے لُٹا دیتے ہیں۔ خیر ہم نے اجازت طلب کی اور وہاں سے واپس آ گئے۔
# اس بات کو کافی ماہ گزر گئے کہ ایک دن میرے ایک دوست کا جو خود بھی پراپرٹی ڈیلر تھا‘ مجھے فون آیا کہ ایک مکان کافی اچھا مل رھا ہے، اگر ارادہ ہے اور تم رکھنا چاہو تو چلو ساتھ تمہیں مکان دکھا دوں۔۔۔
# جب میں اس کے ساتھ گیا تو وہ وہی بابا جی والا مکان تھا۔ میں نے اپنے دوست کو ہنستے ہوے بتایا یہ بابا جی کا مکان ہے اور وہ بابا جی پاگل ہیں شاید- پھر میں نے اپنے دوست کو پچھلے دونوں واقعات سناۓ تو اس نے کہا ’’اس بات میں کچھ نہ کچھ راز تو ضرور ہے چلو پتہ کرتےہیں‘‘
# دروازہ کھولتے ہی بابا جی کی نظر مجھ پر پڑی انہوں نے مجھے گلے سے لگایا اور پہلے کی طرح اس بار بھی ڈرائنگ روم میں لے گئے۔ کچھ دیر بعد وہی خاتون لوازمات سے لدی پھندی چاۓ کی ٹرالی ہماری طرف لاتی ہوئی دکھائی دیں جو شاید خصوصی طور پر پہلے سے تیار کر کے رکھے ہوئے تھے۔
# بابا جی نےہمیں چاۓ نوش کرنے کی دعوت دی تو میں نے کہا بابا جی آج ھم چاۓ تب تک نہیں پیئیں گے جب تک آپ ہمیں یہ نہیں بتاتے کہ آپ مکان کی فروخت کا اشتہار تو دیتے رہتے ہیں لیکن مکان فروخت نہیں کرتے اور جو بھی مکان دیکھنے آتا ہے اس کی خاص مہمانوں کی طرح تواضح کر کے واپس بھیجتے ہیں‘ آخر ماجرا کیا ہے ؟
# یہ سن کر بابا جی نے پہلے خاموش نگاہوں سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور پھر اداس لہجے میں مجھ سے مخاطب ہوئے‘ ’’بیٹا یہ مکان میں نے عمر بھر کی جمع پونجی سے اپنے بچوں کے لیے بنایا ہے، ھم نے مکان نہیں بیچنا، ہم تنہائی کے مارے صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے گھر کوئی آتا جاتا رہے اور ہم بھی کسی سے ملیں، اس سے ہم باتیں کریں اور کوئی ھم سے باتیں کرے۔ ہم بوڑھے ہیں لاچار ہیں ھمارے 3 بیٹے ہیں جنھیں ساری عمر محنت کر کے ہم نے اچھی تعلیم دلوائی اوراب وہ تینوں ملک سے باہر ہیں‘ لیکن ہمارے لیے نہ ہونے کے برابر ہیں۔
# ہم دو بوڑھے اپنے آپ کو اور اس گھر کی خالی دیواروں کو دیکھ دیکھ کر اکتا گئے ہیں اس لیے ہم نے سوچا کہ اپنی اس اداسی کو لوگوں کی تواضح سے ختم کریں، ۔ چلو کسی بہانے سہی، لوگ ہم سے ملتے تو رہیں گے۔
# ان کی باتیں سن کر میرا دل پسیج گیا اور میں نےسوچا بڑھاپا اور اکیلا پن ان دونوں چیزوں کے ساتھ زندگی کس قدر کٹھن ہے۔ اُدھر بابا جی کہہ رہے تھے ’’بیٹا دنیا کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئیے سب کچھ پاس ہے لیکن بڑھاپے میں اصل سہارا اولاد کا ساتھ ہی دیتا ہے-‘‘
*# براہ کرم خیال کیجئے کہ بڑھاپے میں بوڑھے والدین کو آپکے پیسے کی نہیں بلکہ آپکی ضرورت زیادہ ہوتی ھے۔ لہذا والدین کو زیادہ سے زیادہ وقت دیں۔۔۔*
No comments:
Post a Comment