پچهلے سال کی بات هے _ ایک دوست گول بازار سرگودها شاپنگ کر رهے تهے
اُنکی بیٹی کا فون آیا کہ ابو آپکے داماد نے مجهے فارغ کر دیا
علیحدگی د ے دی هے _فورا آئیں اور مجهے لے جائیں _
بیٹی کی یہ بات سن کر وه دوست بائیک دوڑاتا گهر کو واپس چلا __
ان هی سوچوں میں گم هو گا ,
راستے میں چلتی بائیک پر هارٹ اٹیک هوا __
بجلی کے پول سے ٹکرایا اور وهیں سڑک پر جان دے دی _
بظاهر یہ بات اتنی سی هے کہ هارٹ اٹیک هوا اور بنده فوت هو گیا_
وقت مقرر تها_ لیکن نہیں _میں نہیں مانتا_
کوئی بات تو تهی جو ایک اچهے بهلے صحت مند آدمی کی اچانک موت کا باعث بنی _
اِس میں کہیں نا کہیں تو انسانی غلطی نے بهی اپنا حصہ ڈالا هو گا _
علیحدگی کے کچهہ دن بعد میں بچی سے ملا اور پوچها کہ بی بی تین بچوں کیساتھ خاوند نے جو تمہیں چهوڑ دیا __
کیا بات هوئی تهی _تمہارا فسٹ کزن بهی تو تها_
اُس بیٹی نے جو بهی وجہ بتائی وه مجهے سمجهہ نہیں آئی _
الزامات کی ایک لمبی فہرست تهی _
لیکن وه صاحبزادی مجهے کہیں بهی یہ نا بتا سکی کہ معاملات کی بہتری کیلئے خود اُس نے کیا کیا _ ؟
ایک بات میں نے بطور خاص نوٹ کی کہ محترمہ کے هاتھ میں ڈیڑهہ لاکھ والا آئی فون تها_
مرحوم دوست میرے رشتے دار بهی تهے _
اُنکا سابقہ داماد اعلی تعلیم یافتہ اور ایک محترم ادارے میں سکول ٹیچر هے _
چند دن بعد میں بطور خاص اُسے ملنے گیا_
پوچها کہ جوان تم جو اتنی انتہا پر پہنچے _
اپنے بچے تک چهوڑ دیے _
کیا تمہیں بچے پیارے نا تهے _
هوا کیا تها_
کس بات نے تمہیں اتنا مجبور کیا _
وه بولا کہ سر _
میری دو سالیاں هیں _دونوں اِنتہائی امیر گهروں میں بیاهی هوئی _
کوٹهیوں کاروں اور نوکر چاکروں والی ہیں_
جب بهی میری بیوی اپنی بہنوں کو مل کر آتی_
میرے گهر جهگڑا شروع هو جاتا_
مجهے بات بات پر غریبی کے طعنے ملتے_
میں چالیس هزار ماهانہ کا ملازم هوں_
جتنا کر سکتا تها ,
اِنتہائی حد تک کیا
لیکن اب بات برداشت سے باهر تهی _
اُس نے مزید کها کہ مجهے اپنی بیوی بہت پیاری تهی_
میرے پاس تین هزار والا موبائل هے_
بیگم کو میں نے آئی فون لیکر دیا__
پهر کار کا مطالبہ هوا__
بنک لون سے کار لیکر دی_
پرانا فرج بیچ کر قسطوں پر فل سائز نیا فرج لیا_
پهر اے سی کا کہا گیا_اے سی لیکر دیا__
اِس سب کے باوجود طعنے هی طعنے_
میں اپنی نظر میں هی حقیر بن چکا تها_
علیحدگی والے ماه بجلی کا بل تیس هزار آ گیا_
چالیس هزار کل تنخواه میں سے میں کیا کرتا_
دس هزار تو صرف ماهانہ دودھ کا بل بنتا تها_
اُوپر سے بیگم کی فضول کی باتیں_
میں پہلے هی بیگم کی پچهلی لامحدود خواهشات سے تنگ تها_
بالکل ناک میں دم آ چکا تها_
فوری جهگڑا اُس بل پر هوا__اور
بات اِس انتہا تک پہنچی _
یہ بات کرتے کرتے وه رو پڑا _
ساری بات سن کر میں نے اپنا سر جهکایا _اور
گهر واپس آ گیا_
اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں نے اپنی بیٹیوں کو __
اپنے بیٹوں کو کم سے کم خواهشات کیساتھ زنده رهنا سیکھایا_
اس وقت وه علیحدگی یافتہ بیٹی اپنے
شادی شده بهائی کے تین مرلہ مکان کے
اوپر والے ایک کمرے میں ره رهی هے __
جب بجلی بند هو تو اِس کمرے میں بنده ایسے هو جاتا جیسے بهٹی میں دانے بهنتے هیں _
نا اوپر واش روم هے اور نا کچن _
بچے نیچے جائیں تو اُن کی ممانی تهپڑ لگا کر اوپر واپس بهگا دیتی هے _
گوری چٹی اور سرخ و سفید چهبیس سالہ لڑکی صرف ایک سال میں پچاس سال کی اماں نظر آتی هے _سنا هے کسی پرائیویٹ اسکول میں نو دس هزار کی نوکری بهی شروع کر دی هے _
٭ مولا علیؑ کا قول ھے "
عفت فقر کا زیور ھے اور شُکر دولت مندی کی زینت ھے-
نوٹ ۔عفت کے معنی ھم صرف عورت کی عصمت کو سمجھتے ھیں جبکہ یہ ھر صنف کے لئے ھے- ایک عفیف انسان یعنی جسکو اپنی ھر ناجائز خواھشات پر بھرپور کنٹرول حاصل ھو عفیف کہلاتا ھے
No comments:
Post a Comment