Showing posts with label Tehreer. Show all posts
Showing posts with label Tehreer. Show all posts

Monday, 29 July 2019

مرغی خریدوگے

*مرغی خریدو گے*

ایک نکٹھو کو بیوی نے کام کاج کے لیے  کہا ...سست الوجود کے پاس اور تو کچھ نہ تھا ، ایک مرغی تھی اٹھائی اور بازار کو چل دیا کہ بیچ کے  کاروبار کا آغاز کرے - راستے میں مرغی ہاتھ سے نکل بھاگی اور ایک گھر میں گھس گئی --- وہ مرغی کے پیچھے گھر کے اندر گھس گیا ...
مرغی کو پکڑ کے سیدھا ہوا ہی تھا کہ خوش رو خاتون خانہ پر نظر پڑی ..ابھی نظر "چار ہوئی تھی کہ باہر سے آہٹ سنائی دی ..خاتون گھبرائی اور بولی کہ اس  کا خاوند آ گیا ہے اور بہت شکی مزاج ہے ، اور ظالم بھی -
خاتون نے جلدی سے اسے ایک الماری میں گھسا دیا ......
لیکن وہاں ایک صاحب پہلے سے  "تشریف فرماء " تھے -
اب اندر دبکے نکٹھو کو  کاروبار  سوجھا ..آئیڈیا تو کسی  جگہ  بھی آ  سکتا ہے - سو اس نے دوسرے صاحب کو کہا کہ :
"مرغی خریدو  گے ؟"
اس نے بھنا کے کہا کہ یہ کوئی جگہ ہے اس کام کی ؟
"خریدتے ہو یا شور کروں ؟؟؟"
مجبور ہو کے اس نے کہا کہ :
" بولو کتنے کی ؟
سو رپے کی .....
اتنی مہنگی ........؟
"خریدتے ہو یا شور کروں ؟؟؟
"سو روپے کی مرغی بیچ کے نکٹھو بہت خوش ہوا ...ایک دم دماغ میں  روشنی ہوئی :
" اوے مرغی بیچو گے ؟
"تمہارا دماغ تو خراب نہیں ؟
بیچتے ہو یا کروں شور ....؟
مرے ہوے  لہجے میں بولا :
"کتنے کی لو گے ؟
"پچاس کی ..."
اللہ سے ڈر ، ابھی سو کی مجھے بیچی ہے "
"اللہ سے ڈر ہے تو یہاں الماری میں کیوں گھسے بیٹھے ہو .... دیتے ہو یا کروں شور ؟
نکھٹو نے مرغی پچاس کی خریدی اور چپکا بیٹھ گیا ، لیکن ابھی کہاں ابھی تو بزنس شروع ہوا تھا ...
" مرغی خریدو گے ؟؟"
اگر رقیب روسیاہ باہر مورچہ سنبھالے نہ بیٹھا ہوتا تو وہ اس کا سر  توڑ دیتا ، لیکن  بے بسی سے  بولا:
" کتنے کی دو گے ؟"
چلو ! کیا یاد کرو گے اسی روپے دے دو حالانکہ ابھی میں نے یہ سو کی بیچی تھی لیکن واپس  کسی طور واپس آ گئی "
بے بسی کے شدید احساس کے ساتھ  پہلے شخص نے مرغی خرید لی -
مرغی بیچو گے ؟
مرغی خریدو گے ؟
بیچو گے  ؟
خریدو گے ؟
قصہء مختصر ....
مرغی خریدتے اور بیچتے نکٹھو نے چار سو روپے کما لیے اور ہاں بتانے کی بات کہ آخر میں مرغی اس نے واپس خرید لی ...
اس کامیاب تجارت کے بعد جب گھر لوٹا تو نیک دل بیوی نے سارا ماجرا سن کے حرام کمائی کا فتوی لگا دیا اور کہا  کہ یہ کمائی گھر  میں نہیں آئے گی .. جھگڑا بڑھا تو اگلے روز قاضی شہر کے پاس جانے کا فیصلہ ہوا ...
میاں بیوی قاضی کی عدالت میں پہنچے تو قاضی یہ کہہ کے عدالت چھوڑ بھاگا کہ :
" اوے تم یہاں بھی آ گئے ہو ..میں نے اب یہ مرغی نہیں خریدنی "

Saturday, 27 July 2019

سبز چھوٹی الائچی

سبز چھوٹی الائچی
میرے ایک جاننے والے مخلص ہیں‘ میں جب بھی ان سے ملاقات کرتا ہوں، وہ دور سے ہی مسکراتے ہیں‘ جیب میں ہاتھ ڈالتے ہیں ایک سبز چھوٹی الائچی میری ہتھیلی پر رکھ کر خوب جی بھر کر مصافحہ اور معانقہ کرتے ہیں اور بعض اوقات تو ایسا کرتے ہیں کہ الائچی نکالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ منہ کھولو اور منہ میں الائچی ڈال دیتے ہیں‘خوش ہوتے ہیں‘ اعلیٰ درجہ کے مہمان نواز‘ مخلص‘ ملن سار‘ مرنجاں مرنج ہیں۔ ان کی ساری صفات بہت اچھی لیکن یہ صفت کہ وہ الائچی ہر آنے والے کو ضرور کھلاتے ہیں اور ان کی جیب میں الائچی لازم موجود ہوتی ہے۔ ایک بار میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ ہروقت اپنے پاس الائچی کیوں رکھتے ہیں؟

کہنے لگے: ہوا یہ کہ میں مصر گیا اور قاہرہ ایئرپورٹ پر بیٹھا ہوا تھا‘ ایک ہوٹل مینجمنٹ سے ہمارا پیکیج طے تھا کہ انہوں نے مجھے لینے آنا تھا اور ٹیکسی آنے میں دیر ہوئی‘ میرے ساتھ ایک مصری آکر بیٹھا اور بیٹھتے ہی اس نے مجھے چھوٹی الائچی دی‘ مسکرایا‘ سلام کیا‘ ہاتھ ملایا اور بہت خوش ہوا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ آپ نے مجھے چھوٹی الائچی کیوں دی؟ تو اس نے مجھے اپنی مصری عربی میں بہت اعتماد سے بتایا چھوٹی الائچی منہ کو خوشبودار رکھتی ہے‘ مسوڑھوں کی بیماری قریب نہیں آنے دیتی جس کے منہ میں چھوٹی الائچی ہوتی ہے‘ اس کے دانتوں میں اگر خون آتا ہو‘ مسوڑھے گل گئے ہوں‘ منہ میں پرانے چھالے ہوں اور زخم ہوں‘ وہ ختم ہوجاتے ہیں حتیٰ کہ کہنے لگے: مجھے سگریٹ نوشی کی وجہ سے ایک دفعہ ڈاکٹر نے بُری خبر سنائی کہ تیرے منہ کے اندر کینسر کی علامات پیدا ہورہی ہیں‘ فوراً سگریٹ چھوڑ دو اور زبان کا کچھ حصہ سرجری سے کٹوا دو میں خوفزدہ ہوگیا۔

میں نے سگریٹ فوراً چھوڑ دیا نامعلوم مجھے دل میں کیا خیال آیا میں نے بہترین الائچیاں لیں اور وہ فوقتاً فوقتاً دن میں منہ میں ڈالتا‘ چوستا چباتا رہتا کچھ ہی ماہ میں نے یہ عمل کیا‘ مجھے منہ میں تکلیف کا احساس ختم ہوگیا اور میں یہ تک بھول گیا کہ مجھے کوئی تکلیف ہے بلکہ میں اپنے آپ کو سوفیصد صحت مند محسوس کرنے لگا۔

ایک دفعہ راہ گزرتے ہوئے میں اس ڈاکٹر کے پاس پھر چلا گیا اس نے چیک کیا اور چیک کرتے ہی حیرت سے مجھے دیکھ کر خاموش بیٹھا‘ پھر بولا: میری گزشتہ تشخیص کے مطابق آپ کے منہ میں کینسر کی جڑیں پیدا ہوچکی تھیں اور کینسر کے اثرات بڑھ رہے تھے لیکن اس وقت نہ کوئی کینسر ہے اور نہ کینسر کی علامات ہیں‘ آپ نے کہاں سے علاج کروایا اور کیسے علاج کیا۔ مجھے فوراً اس کی بات سمجھ آگئی اور میرا دل سوفیصد چھوٹی الائچی کی طرف متوجہ اور منتقل ہوگیا۔ میں نے اس سے کہا کہ میں چند ماہ سے مسلسل چھوٹی الائچی استعمال کررہا ہوں‘ بس جیب میں رکھتا ہوں اور چھوٹی الائچی چوستا رہتا ہوں‘ چباتا رہتا ہوں‘ اس نے میری بات سنی ان سنی کردی۔

وہ فوراً اپنے کمپیوٹر کی طرف متوجہ ہوااور کچھ دیر کمپیوٹر پر جھکا‘ کچھ دیکھتا رہا‘ اس کے بعد اس نے میری طرف دیکھا اور مسکراتی نظروں سے بولا: آپ تو سائنس دان نکلے‘ یہ ٹوٹکہ آپ نے کیسے ڈھونڈ نکالا ۔میں نے پوچھا مثلاً کیسے؟ کہنے لگا: میں نے فوراًانٹر نیٹ کا سہارا لیا اور الائچی پر جو اس دقت دنیا میں جتنی بھی ریسرچ ہوئی تھی ہر تحقیق پر سرسری نظر ڈالتے ڈالتے آگے چلتا گیا‘ ایک جگہ میں جاکر رک گیا لکھا ہوا ہے کہ الائچی منہ کے کینسر کا علاج‘ ناک اور زبان کے کینسر کا علاج ہے۔ الائچی دماغ کو روشن‘ نظر کو تیز یادداشت کو مضبوط کرتی ہے اور الائچی استعمال کرنے والا فرد کبھی ڈھلتا اور بوڑھا نہیں ہوتا۔

وہ ڈاکٹر بول رہا تھا اور میں حیرت سے اس کو تک رہا تھا اور کہنے لگا: مزید اس کے فوائد یہ ہیں کہ جوشخص الائچی استعمال کرے گا اس کی نسلوں میں بیٹے زیادہ ہونگے اور اس کو معدہ اور بواسیر کی بیماری سے ہمیشہ حفاظت رہے گی‘ وہ مصری بول رہا تھا اور میں سن رہا تھا۔ الائچی ساری عمر دیکھی اور الائچی کو ساری عمر قریب سے پرکھا لیکن اس انداز سے الائچی کو دیکھنا میرے لیے ایک حیرت کی بات تھی۔ بس میں انتظار میں تھا شاید وہ مصری بھی کسی کے انتظار میں تھا۔
یہ تھوڑی سی بات ہوئی، میری گاڑی مجھے لینے آگئی میں نے ان کا شکریہ ادا کیا‘ چل دیااس دن کے بعدمیں ہروقت منہ میں الائچی رکھتا ہوں پھر خیال آیا جس چیز کو اپنے لیے پسند کرتا ہوں کسی دوسرے کے لیے کیوں نہ پسند کروں‘ لہٰذا میں نے اسے دوسروں کیلئے پسند کرنا بھی شروع کردیا اور جب سے میں نے لوگوں کو الائچی دینا شروع کی ہے میرے دوست بڑھ گئے اور لوگ اس کے فوائد بہت بتارہے ہیں ایک صاحب کو دائمی نزلہ اورکیرا تھا کہنے لگے میرا دائمی نزلہ ختم ہوگیا۔ ایک صاحب اپنی یاداداشت بالکل کھو چکے تھے وہ سارا دن منہ میں الائچی رکھ کر اپنے کام کاج کرتے رہتے تھے اب عالم یہ ہے کہ انہیں بچپن کی بھولی ہوئی باتیں بھی یاد آرہی ہیں اور وہ خود کہتے ہیں الائچی نے مجھے نئی زندگی دی‘ نئی صحت دی‘ نئی تندرستی دی اور میں الائچی استعمال کرکے ایک نہایت کامل اور صحت مند زندگی گزار رہا ہوں۔

قارئین ! یہ واقعہ جو میں نے آپ کو ابھی سنایا یہ صرف ایک نہیں ہماری طب میں اور سائنس کی دنیا میں الائچی کے کمالات اور الائچی کی تاثیر بہت زیادہ ہے اور الائچی سے صحت و زندگی کا انوکھا راز ملتا ہے۔ ہم کبھی بھی تنہا الائچی استعمال نہیں کررہے بنیادی طور پر الائچی ایک بہت بڑی طاقت‘ قوت‘ وٹامن اے سے زیڈ تک کا خزانہ ہے۔ لاعلاج بیماریوں کیلئے مستقل علاج ہے۔

یہ اس دور کی بات ہے جب ہم کالج پڑھتے تھے ہمارے ایک پروفیسر صرف چھوٹی الائچی کی اتنی باریک پسائی کرتے کہ ململ کے باریک کپڑے سے نکالتے اور آدھے چنے کے برابر اس کی پڑیا ہر لاعلاج مریض کو دیتے تھے۔ ان کے تجربہ کے مطابق ہمیشہ چھلکا سمیت الائچی پیستا ہوں اور ہرلاعلاج مریض کو یہی پڑیا دیتا ہوں۔ کسی کو دن میں ایک بار کسی کو دن میں تین سےچار بار کھانے کیلئے کہتا ہوں۔

آپ چاہے کوئی بھی بیماری کا علاج کررہے آپ نہیں چھوڑنا چاہتے تو کوئی حرج نہیں لیکن اس صحت مند زندگی کو پانے کیلئے یہ بہترین علاج اور بہترین تندرستی کا راز آپ ہر گز نہ بھولیں اور اس تندرستی کے راز کو پانا آپ کو اتنا تندرست اور صحت مند کردے گا اور آپ گمان و خیال اور سوچ سے بالا تر اپنی صحت اور زندگی پائیں گے۔
منقول

ہٹلر

💣 *ﮨﭩﻠﺮ* 💣 *ﮨﭩﻠﺮ* 💣 *ﮨﭩﻠﺮ*

(میراسلم رند)

ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺷﮩﺮﺕ ﮨﭩﻠﺮ ﻧﮯ ﭘﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ‘ﯾﮧ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﺍﻋﻈﻢ ﺍﻭﺭ ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﻮﺍ۔ ﮨﭩﻠﺮ ﺧﻮﺑﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﻣﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﻋﺠﯿﺐ ﻣﺠﻤﻮﻋﮧ ﺗﮭﺎ۔ﻣﺜﻼً ﯾﮧ ﺷﺮﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﯿﺘﺎ ﺗﮭﺎ‘ ﺳﮕﺮﯾﭧ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﯿﺘﺎ ﺗﮭﺎ‘ ﺟﻮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﯿﻠﺘﺎ ﺗﮭﺎ‘ ﺑﺪﺍﺧﻼﻗﯽ ﮐﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺳﺮﮔﺮﻣﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﻮﺙ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ‘ﺍﺳﮯ ﺩﻭﻟﺖ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﻮﻕ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ‘ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﺴﯽ ﺑﯿﻨﮏ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﮐﺎﺅﻧﭧ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﭻ ﺯﻣﯿﻦ ﯾﺎ ﺟﺎﺋﯿﺪﺍﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ۔ ﺁﭖ ﺧﺎﻣﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺑﮯ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﻇﺎﻟﻢ ﺗﮭﺎ‘ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﭨﮫ ﻻﮐﮫ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻣﺮﻭﺍ ﺩﺋﯿﮯ ﺗﮭﮯ‘ﯾﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﺁﻣﺮ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺷﺨﺺ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺗﮏ ﺳﻨﻨﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺑﮩﺮﺣﺎﻝ ﮨﭩﻠﺮ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻭﺍﻟﺪ ﺟﻮﻧﯿﺌﺮ ﮐﻠﺮﮎ ﺗﮭﺎ‘ ﯾﮧ ﻣﯿﭩﺮﮎ ﻣﯿﮟ ﻓﯿﻞ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﮫ ﺳﺎﻝ ﺗﮏ ﻭﯾﺎﻧﺎ ﮐﮯ ﺭﯾﻠﻮﮮ ﺳﭩﯿﺸﻦ ﭘﺮ ﻗﻠﯽ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ۔ ﭘﮩﻠﯽ ﺟﻨﮓ ﻋﻈﯿﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺳﮯ ﻓﻮﺝ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺮﺗﯽ ﮨﻮﺍ۔ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﭘﺎﺭﭨﯽ ﮐﺎ ﺗﺮﺟﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﻘﺮﯾﺮﯾﮟ ﮐﺮﺗﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﻧﺎﻣﻮﺭ ﻟﯿﮉﺭ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ۔ﻏﺮﺽ ﮨﭩﻠﺮ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﻋﺠﯿﺐ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺗﮭﺎ‘ ﻣﻮﺭﺧﯿﻦ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﮨﭩﻠﺮ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﺳﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﭘﯿﺶ ﻧﮧ ﺁﺗﺎ ﺗﻮ ﺷﺎﺋﺪ ﮨﭩﻠﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﮨﭩﻠﺮ ﻧﮧ ﺑﻨﺘﺎ۔ ﺍﺱ ﻭﺍﻗﻌﮯ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﺍﺱ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﮨﮯ ﺟﺐ ﻭﮦ ﻭﯾﺎﻧﺎ ﮐﮯ ﺭﯾﻠﻮﮮ ﺳﭩﯿﺸﻦ ﭘﺮ ﻗﻠﯽ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﭩﯿﺸﻦ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﮐﮭﮍﮮ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ’’ﻣﺠﮭﮯ ﮈﺭ ﺑﮩﺖ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ‘ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﻧﮑﻞ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﻮﮞ‘‘ ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍﯾﺎ‘ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﮨﭩﻠﺮ ﮐﮯ ﺩﻝ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ’’ﻣﯿﺮﮮ ﺑﭽﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﮈﺭ ﺍﺱ ﺟﮕﮧ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ‘ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﮈﺭ‘ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻮﻑ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺗﻢ ﯾﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮈﺭ ﻧﮑﺎﻝ ﺩﻭ ﺳﺎﺭﮮ ﺧﻮﻑ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ‘‘۔ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺳﯿﺪﮬﯽ ﮨﭩﻠﺮ ﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﭘﺮ ﻟﮕﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺳﯽ ﺩﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺳﺎﺭﺍ ﺧﻮﻑ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺩﯾﺎ۔ ﯾﮧ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮨﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﺎﺭﮮ ﺧﻮﻑ‘ﺳﺎﺭﮮ ﮈﺭ‘ ﺳﺎﺭﯼ ﺳﺎﺯﺷﯿﮟ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ‘ﯾﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﻧﺪﺭ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﮔﺮ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺍﻧﺪﺭ ﺻﺎﻑ ﮨﮯ‘ﮨﻢ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﯿﺮﻭﻧﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﮨﻤﯿﮟ ﮈﺭﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ‘ ﮨﻤﯿﮟ ﺷﮑﺴﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﯽ‘ﮨﭩﻠﺮ ﺍﮔﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﻣﺜﺒﺖ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﮍﯼ ﺗﺒﺎﮨﯽ ﺳﮯ ﺩﻭﭼﺎﺭ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﯽ‘ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺻﻼﺣﯿﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﻨﻔﯽ ﻣﻘﺎﺻﺪ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ‘ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮨﺮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺻﻼﺣﯿﺘﯿﮟ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺑﮭﯿﺠﺘﺎ ﮨﮯ‘ﺍﺏ ﯾﮧ ﮨﻢ ﭘﺮ ﻣﻨﺤﺼﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﺻﻼﺣﯿﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺲ ﺳﻤﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ‘ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﮯ ﺧﻮﻑ ﭘﺮ ﻗﺎﺑﻮ ﭘﺎ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﯽ ﺑﺸﺮﻃﯿﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﻮﭺ ﻣﺜﺒﺖ ﮨﻮ۔۔۔

سٹاک ایکسچینج کیا ہے

سٹاک ایکسچینج۔۔۔۔۔کیا ھے؟؟

ایک گاؤں کے پاس ایک جنگل تھا جس میں بندر بہت تھے۔ایک کمپنی نے اپنا کیمپ لگایا اور سروے کیا کہ کتنے بندر ہیں جنگل میں۔ اِس کے بعد گاؤں میں اعلان کر دیا کہ کمپنی 300 روپے کا ایک بندر خریدے گی۔ گاؤں والوں نے سوچا مفت کا بندر ہے اور 300 ملیں گے۔گاؤں والوں نے بندر پکڑنا شروع کر دئیے۔
کمپنی نے 40% بندر خریدے اور اعلان کیا کہ اب بندر 400 میں خریدے گی۔ لوگوں نے اور محنت سے بندر پکڑنے شروع کر دئیے۔
کمپنی نے مزید 40% بندر خریدے۔
اب جنگل مین بندر بہت کم رہ گئے اور پکڑنا مشکل ہو گیا۔

کمپنی نے اعلان کروایا کہ اب بندر 1000 روپے کے حساب سے لے گی اور اپنا ایک ایجنٹ چھوڑ دیا جو لوگوں کو 300-400 میں خریدا ہُوا بندر 700 میں دینے لگا۔
لوگوں نے سوچا بندر پکڑنا اب مشکل ہے اس سے 700 میں لے کے کمپنی کو 1000 میں بیچ دیتے ہیں۔

کچھ دن کے بعد بندر بھی گاؤں والوں کے پاس تھے اور کمپنی اپنا کیمپ اٹھا کے غائب ہو چکی تھی۔
گاوں بھی وہیں ، بندر بھی وہیں اور کمپنی مالا مال..!!

یہ ہے سٹاک ایکسچینج۔۔۔۔

احساس

احساس                           

یہ وہ چیز ہے یہ ہمارے اندر تب پیدا ہوتی ہے جب ہمیں یقین آجاے کہ ، میں ہی ہوں جو صرف اور صرف میری ذات کے ساتھ مخلص ہوں، یہ بات صرف اور صرف اپنی ذات کو نکھار کر ایک ایسے شکس کو وجود میں لاتی ہے ،جو تھک ہار کے جب خود میں صرف خود کو دیکھتا ہے، پھر وہ اپنے اندر کی آواز کو سنتا ہے، ہاں اسے یوں بھی کہ سکتے ہیں، ہمے جب بھوک لگتی ہے تو ہم کھانا کھاتے  ہیں اور خود میں چل رہی بھوک کی تڑپ کو کم کرتے ہیں. ایسا نہیں ہوتا بھوک ہمے لگی ہے اور ہم یہ سوچ کے خود کو تسلی دیں کہ سامنے بیٹھے شکس نے کھانا کھا لیا ہے اور بھوک ہماری ختم ہو گئی.
صرف اور صرف بھوک ہی ہے جو یہ احساس پیدا کرتی ہے...
جو لوگ خود کچھ کھا لیتے ہیں وہ خود کو پر سکون اور جو دوسروں کو صرف دیکھتے ہیں وہ ہمیشہ ....
بات صرف اتنی سی ہے جب تک خود کچھ نہیں کھائیں گے، خود کو پر سکون نہیں کریں گے، تب تک دوسروں کو کیسے کھیلاین گے؟ فقط صرف اتنا کچھ لوگ اس بات کو وقتاً فوقتاً سمجھ جاتے ہیں. جو سمجھ جاتے ہیں ان کی زندگی پر سکون اور کامیاب رہ کر گذرتی ہے!

مکان براۓ فروخت

*# اخبار میں اشتہار پڑھا:*

# *"مکان براۓ فروخت"*

# میں نے پتہ نوٹ کر کےپہلے مکان کا بیرونی جائزہ لیا اور پھر ہمراہ ایک پارٹی کو لے کر گیا جو مطلوبہ مکان خریدنا چاہتی تھی جیسے ھی ہم لوگ اس گھر کے دروازے پر پہنچے ایک عمر رسیدہ بزرگ نے ہمیں اندر آنے کی دعوت دی اور ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کا کہا۔۔۔ کچھ دیر بعد ایک عمر رسیدہ خاتون خانہ چاۓ کی ٹرالی سجاۓ ہوۓ ڈرائنگ روم میں آپہنچیں جس پر چاۓ کے علاوہ گاجر کا حلوہ ،نمکو ،بسکٹ اور کچھ مٹھائی بھی رکھی ہوئی تھی۔ اتنے زیادہ لوازمات دیکھ کرایسا لگتا تھا گویا ہم اجنبی نہیں بلکہ ان کے خاص مہمان ھوں۔
# وہ دونوں میاں بیوی ہمارے سامنے بیٹھ گئے اور ہمیں چاۓ نوش کرنے کی دعوت دی۔ مجھے احساس ہوا کہ شاید بزرگ میاں بیوی کو کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔
# میں نے ان سے کہا کہ ہم مکان کی بات چیت کرنے آئے ہیں اور ہماری آج پہلی ملاقات ہے پھرآپ نے اتنا تکلف کیوں کیا؟
# بابا جی نے دھیمے لہجے میں کہا ’’بیٹا آپ چاۓ نوش فرمائیں مکان کی بات بعد میں ہوتی رہے گی‘‘ ہم سب لوگ چاۓ سے لطف اندوز ہوتے رھے اور ساتھ کچھ گفتگو کرتے رھے۔ وہ دونوں کافی خوش مزاج لوگ تھے اور بہت اچھی گفتگو کرتے تھے۔ چائے کے بعد بھی جب کچھ دیر تک انہوں نے مکان کا تذکرہ نہ چھیڑا تو میں نے خود ہی بابا جی سے پوچھا ’’اب مکان کی بات کریں؟‘‘
# جی جی آئیے۔۔۔ تشریف لائیے آپ کو مکان اندر سے چیک کروادوں۔۔۔‘‘ انہوں نے تفصیل سے ہمیں پورا مکان دکھایا،
# ’’یہ مکان آپ کتنے میں دیں گے؟‘‘ میرے سوال پربابا جی نے کہا مکان کی قیمت پچاس لاکھ روپے ہے۔ میں حیران ہو کر بولا ’’بابا جی آپ کا مکان تو تیس لاکھ روپے کا بھی نہیں اور آپ پچاس لاکھ مانگ رہے ہیں؟ اس سے پہلے آپ نے ہماری پرتکلف مہمانداری کر کے ہم پراحسان کیا ہے اوراب مکان کی قیمت بھی مارکیٹ سے بہت زیادہ مانگی ہے۔ لہٰذا ہمارا سودا نہیں ہو سکتا‘‘ تو بابا جی نے کہا ’’کوئی بات نہیں بیٹا یہ کھانا پینا کچھ نہیں انسان اپنے نصیب کا کھاتا ہے۔‘‘ خیر ہم دو تین گھنٹے وہاں گزار کر خالی ہاتھ واپس لوٹ آئے۔
# دو مہینے بعد میں نے اخبار میں پھر سے اسی مکان کی فروخت کا اشتہار پڑھا اور تعجب ہوا کہ ابھی تک بابا جی کا مکان نہیں بِکا۔  دوبارہ  فون پر ان سے رابطہ کرکے ایک دوسری پارٹی کو ساتھ لے کر بابا جی کا مکان دیکھنے چلا گیا۔
# جیسےہی دروازہ کھٹکھٹایا تو بابا جی نے ایک بار پھر پُر تپاک طریقے سے اندر آنے کی دعوت دی اور ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور کچھ دیر بعد وہی خاتون خانہ اسی طرح لوازمات سے بھری چاۓ کی ٹرالی لیے ہماری طرف آ رہی تھیں۔۔۔
# میں نے بے ساختہ کہا‘ ’’بابا جی آپ ہر آنے والے کے لیے اتنا تکلف کیوں کرتے ہیں؟ آپ مکان کتنے میں بیچنا چاھتے ہیں۔۔۔؟‘‘
# بابا جی نے وہی جواب دیا ’’آپ چاۓ نوش فرمائیں مکان کی بات بعد میں کرتے ہیں۔ پہلے کی طرح اس بار بھی چاۓ وغیرہ کے بعد کافی وقت ان سے  گفتگو میں گزر گیا اور جب میں نے بابا جی سے مکان کی بات کرنا چاہی تو بابا جی نے پھر پچاس لاکھ کی ڈیمانڈ کر دی۔ مجھے کچھ غصہ بھی آیا اور حیرت بھی ہوئی کہ یہ بابا جی دماغی مریض لگتےہیں جو ہر آنے والے پر ہزار بارہ سو روپے لُٹا دیتے ہیں۔ خیر ہم نے اجازت طلب کی اور وہاں سے واپس آ گئے۔
# اس بات کو کافی ماہ گزر گئے کہ ایک دن میرے ایک دوست کا جو خود بھی پراپرٹی ڈیلر تھا‘ مجھے فون آیا کہ ایک مکان کافی اچھا مل رھا ہے، اگر ارادہ ہے اور تم رکھنا چاہو تو چلو ساتھ  تمہیں مکان دکھا دوں۔۔۔
# جب میں اس کے ساتھ گیا تو وہ وہی بابا جی والا مکان تھا۔ میں نے اپنے دوست کو ہنستے ہوے بتایا یہ بابا جی کا مکان ہے اور وہ بابا جی پاگل ہیں شاید- پھر میں نے اپنے دوست کو پچھلے دونوں واقعات سناۓ تو اس نے کہا ’’اس بات میں کچھ نہ کچھ راز تو ضرور ہے چلو پتہ کرتےہیں‘‘
# دروازہ کھولتے ہی بابا جی کی نظر مجھ پر پڑی انہوں نے مجھے گلے سے لگایا اور پہلے کی طرح اس بار بھی ڈرائنگ روم میں لے گئے۔ کچھ دیر بعد وہی خاتون لوازمات سے لدی پھندی چاۓ کی ٹرالی  ہماری طرف لاتی ہوئی دکھائی دیں جو شاید خصوصی طور پر پہلے سے تیار کر کے رکھے ہوئے تھے۔
#  بابا جی نےہمیں چاۓ نوش کرنے کی دعوت دی تو میں نے کہا بابا جی آج ھم چاۓ تب تک نہیں پیئیں گے جب تک آپ ہمیں یہ نہیں بتاتے کہ آپ مکان کی فروخت کا اشتہار تو دیتے رہتے ہیں لیکن مکان فروخت نہیں کرتے اور جو بھی مکان دیکھنے آتا ہے اس کی خاص مہمانوں کی طرح تواضح کر کے واپس بھیجتے ہیں‘ آخر ماجرا کیا ہے ؟
# یہ سن کر بابا جی نے پہلے خاموش نگاہوں سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور پھر اداس لہجے میں مجھ سے مخاطب ہوئے‘ ’’بیٹا یہ مکان میں نے عمر بھر کی جمع پونجی سے اپنے بچوں کے لیے بنایا ہے، ھم نے مکان نہیں بیچنا، ہم تنہائی کے مارے صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے گھر کوئی آتا جاتا رہے اور ہم بھی کسی سے ملیں، اس سے ہم باتیں کریں اور کوئی ھم سے باتیں کرے۔  ہم بوڑھے ہیں لاچار ہیں ھمارے 3 بیٹے ہیں جنھیں ساری عمر محنت کر کے ہم نے اچھی تعلیم دلوائی اوراب وہ تینوں ملک سے باہر ہیں‘ لیکن ہمارے لیے نہ ہونے کے برابر ہیں۔
#  ہم  دو بوڑھے اپنے آپ کو اور اس گھر کی خالی دیواروں کو دیکھ دیکھ کر اکتا گئے ہیں اس لیے ہم نے سوچا کہ اپنی اس اداسی کو لوگوں کی تواضح سے ختم کریں،  ۔ چلو کسی بہانے سہی، لوگ ہم سے ملتے تو رہیں گے۔
# ان کی باتیں سن کر میرا دل پسیج گیا اور میں نےسوچا بڑھاپا اور اکیلا پن ان دونوں چیزوں کے ساتھ زندگی کس قدر کٹھن ہے۔ اُدھر بابا جی کہہ رہے تھے ’’بیٹا دنیا کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئیے سب کچھ  پاس ہے لیکن بڑھاپے میں اصل سہارا اولاد کا ساتھ ہی دیتا ہے-‘‘

*# براہ کرم خیال کیجئے کہ بڑھاپے میں بوڑھے والدین کو آپکے پیسے کی نہیں بلکہ آپکی ضرورت زیادہ ہوتی ھے۔ لہذا والدین کو زیادہ سے زیادہ وقت دیں۔۔۔*

سنہری باتیں

✍درخت پر
اوقات سے زیادہ
پھل لگ جائیں
تو اس کی ڈالیاں
ٹوٹنا شروع ہو جاتی ہیں

انسان کو اوقات سے
زیادہ مل جائے
تو وہ رشتوں کو
توڑنا شروع کر دیتا ہے
انجام آہستہ آہستہ
درخت اپنے پھل سے
محروم ہو جاتا ہے

✍الفاظ کا چناؤ
سوچ سمجھ کر کریں
جب آپ بات
کر رہے ہوتے ہیں
تو آپ کے الفاظ...
آپ کے خاندان کا پتہ،
مزاج اور آپ کی
تربیت کا پتہ
دے رہے ہوتے ہیں

✍بچہ بڑا ہو کر
سمجھ جاتا ہے
کہ ابا کی پابندیاں
ٹھیک ہی تھیں

اور بندہ مرنے کے بعد
سمجھ جائے گا
کہ اس کے رب کی
پابندیاں ٹھیک تھیں

✍زندگی
کوئی چائے کا کپ
تھوڑی ہوتی ہے
کہ ایک چمچہ
شکر ملا کر
ذائقے کی تلخی کو
دور کر دیا جائے

زندگی کو تو
عمر کے آخری لمحے تک
گھونٹ گھونٹ
پینا پڑتا ہے
چاہے تلخی کتنی
زیادہ کیوں نہ
ہو جائے

✍تہجد پڑھتے ہیں
مگر اپنے بھائی
سے بول چال
نہیں رکھتے
ہر نیک کام کرتے ہیں
مگر غیبت
نہیں چھوڑتے
اپنی نیکیاں
ایسی تھیلی میں
جمع نہ کریں
جس میں سوراخ ہو

✍اگر تمہیں
ایک دوسرے کے
اعمال کا پتہ
چل جائے
تو تم ایک دوسرے کو
دفن بھی نہ کرو
اللہ نے
تمہارے عیب
چھپا رکھے ہیں
اس پر شکر ادا کرو
اور دوسروں کے عیبوں کو بھی چھپانے کی عادت ڈالو
کیونکہ برائیاں آپ میں بھی ہیں اور زبانیں دوسروں کے پاس بھی ہیں

✍کچھ لوگ
اپنے لئیے
ساری ساری رات
جنت کی دعائیں
مانگتے ہیں
لیکن دوسروں کی
زندگی انہوں نے
جہنم بنائی
ہوئی ہوتی ہے

✍ہم کسی کے
دل میں
جھانک نہیں سکتے
یہ جان نہیں سکتے
کہ کون ہمارے ساتھ
کتنا مخلص ہے
لیکن وقت اور روئیے
جلد ہی یہ
احساس دلا دیتے ہیں

✍اپنی طرف سے
بھرپور کوشش کیجئیے
سخت محنت کیجئیے
طریقہ صحیح اور جائز
اختیار کیجئیے
دعا کیجئیے
پر امید رہئیے
اور نتیجہ
اللہ تعالی پر
چھوڑ دیجئیے

✍زبان دراز لوگوں سے
ڈرنے کا
کوئی فائدہ نہیں
وہ تو شور ڈال کر
اپنی بھڑاس
نکال لیتے ہیں
لیکن ڈرو
ان لوگوں سے
جو سہہ جاتے ہیں
کیونکہ وہ معاملہ
اللہ کے سپرد
کر دیتے ہیں
جہاں ناانصافی کی
گنجائش نہیں ہوتی
وہاں دیر ہے
اندھیر کبھی نہیں

✍اگر آپ
سوچ رہے ہیں کہ....
ہر چیز
آپ کے ہاتھوں سے
نکل رہی ہے
اور حالات
آپ کے موافق
نہیں ہیں
تو ایک دفعہ
اس درخت کے
بارے میں ضرور سوچنا
جو ایک ایک کر کے
اپنے تمام پتے
کھو دیتا ہے
لیکن پھر بھی
کھڑا رہتا ہے
اس امید پر کہ...
بہار کے دن آئیں گے

✍مجھے
اتنا عجیب لگتا ہے ناں...
کہ لوگ
ہماری زندگی کا
ایک صفحہ پڑھ کے
ہمارے بارے میں
پوری کتاب
خود ہی
لکھ لیتے ہیں

✍کوئی یہ کیسے
سوچ سکتا ہے
کہ حساب نہیں ہوگا
کہ وہ بخشا جائے گا
یاد رہے
حساب دینا ہوگا
ایک ایک آہ کا،
آنسو کا،
تڑپ کا،
بے حسی کا
اور بے رحمی کا
حقوق اللہ کے بعد
حقوق العباد کا معاملہ
بھی بہت سخت ہے
*افسوس*!
کچھ نہیں...
سبھی لوگ
یہ بات
بھلائے بیٹھے ہیں