محبتوں کی ہوس کے اسیر ہم بھی نہیں
غلط نہ جان کہ اتنے حقیر ہم بھی نہیں
نہیں ہو تم بھی قیامت کی تُندوتیز ہوا
کسی کے نقشِ قدم کی لکیر ہم بھی نہیں
ہماری ڈوبتی نبضوں سے زندگی تو نہ مانگ
سخی تو ہیں مگر اتنے امیر ہم بھی نہیں
کرم کی بھیک نہ دے، اپنا تخت بخت سنبھال
ضرورتوں کا خُدا تُو ہےتو فقیر ہم بھی نہیں
ہمیں بُجھا دے، ہماری اَنا کو قتل نہ کر
کہ بے ضررہی سہی، بے ضمیر ہم بھی نہیں
محسن نقوی
عمدہ تحریر ہے
ReplyDelete