شیخ صاحب اپنے شہ زور ٹرک پر بیٹھ کر شہر کے چوک میں پہنچے اور لگے وہاں بیٹھے مزدوروں کو آوازیں دینے: کون کون جانا چاہتا ہے میرے ساتھ مزدوری پر، دو دو سو روپے دیہاڑی دونگا۔
پہلے پہل تو لوگ شیخ صاحب پر خوب ہنسے، پھر اسے سمجھانے کیلیئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ جناب والا: آجکل مزدور کی دیہاڑی پانچ سو روپے سے کم نہیں ہے۔ کیوں آپ ظلم کرنے پر تُلے ہوئے ہیں، کوئی نہیں جائے گا آپ کے ساتھ۔ نہ بنوائیے اپنا مذاق۔
شیخ صاحب اپنے موقف پر ڈٹے اور سُنی ان سُنی کر کے مزدوروں کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دیتے رہتے ۔ شور کم ہوا اور بہت سارے مزدور تھک کر واپس جا بیٹھے تو تین ناتواں قسم کے بوڑھے مزدور، جن کے چہروں سے ہی تنگدستی اور مجبوری عیاں تھی، شیخ صاحب کی گاڑی میں ا کر بیٹھ گئے اور بولے: شیخ صاحب، چلیئے ہم کرتے ہیں مزدوری۔ اس بے روزگاری سے بہتر ہے کہ آپ کے پاس مزدوری کر کے، چلو کچھ کما لیں اور گھر کیلیئے دال روٹی بنا جائیں۔
شیخ صاحب نے ان تینوں کو ساتھ لیجا کر ایک یوٹیلیٹی سٹور پر روکا، تینوں کو ایک ایک تھیلا بیس کلو کے آٹے کا، پانچ پانچ کلو چینی اور پانچ پانچ کلو گھی لیکر دیا، تینوں کی ہتھیلی پر پانچ پانچ سو روپیہ بھی رکھا اور اجازت دیتے ہوئے کہا؛ بس آپ کا اتنا ہی کام تھا، آپ لوگ اپنے اپنے گھروں کو جا سکتے ہیں۔
دوسرے دن شیخ صاحب دوبارہ اپنا شہ زور ٹرک لیکر اسی جگہ پہنچے اور آواز دی: کون کون جانا چاہتا ہے میرے ساتھ مزدوری پر۔ دو دو سو روپے دیہاڑی دونگا سب کو۔ مزدور تو گویا تیار ہی بیٹھے تھے، سب سے پہلے چڑھنے کیلیئے ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے سب ٹرک پر سوار ہو گئے۔
سنا ہے شیخ صاحب نے سب سے
مغرب تک کام کراوایا۔۔
اور پورے دو دو سو روپے مزدوری
دیکر چھٹی دی۔
شیخ شیخ ہوتا ہے۔۔
منقول۔۔
No comments:
Post a Comment