محفل سے اٹھانے کے سزا وار ہمی تھے
سب پھول ترے باغ تھے، اک خار ہمی تھے
ہم کس کو دکھاتے شب ِ فرقت کی اداسی
سب خواب میں تھے رات کو، بیدار ہمی تھے
سودا تری زلفوں کا گیا ساتھ ہمارے
مر کر بھی نہ چُھوٹے ، وہ گرفتار ہمی تھے
کل رات کو دیکھا تھا جسے خواب میں تم نے
رخسار پہ رکھے ہوئے. رخسار ، ہمی تھے
دل سوختہ تھے چاہنے والوں میں تمہارے
لیکن سببِ گرمیِ اظہار ہمی تھے
کل کوچۂ قاتل میں جو تھا خلق کا مجمع
کھائے ہوئے اس ہاتھ کی تلوار ، ہمی تھے
اے عشق مژہ کون ہمیں دیکھنے آتا
آنکھوں میں کھٹکتے تھے وہ بیمار ہمی تھے
تربت میں بھی آنکھیں نہ ہوئیں بند ہماری
ایسے ترے اک طالبِ دیدار ہمی تھے
ٹھنڈے کیے غیروں کے دل اور ہم کو جلایا
اک تھے تو محبت کے گنہ گار ، ہمی تھے
تم غیروں سے ڈر ڈر کے لپٹ جاتے تھے پیہم
کل رات کو نالاں پسِ دیوار ہمی تھے
سب راز تعشق سے بیاں ہوتے تھے دل کے
پہلے ترے اک محرمِ اسرار ہمی تھے
No comments:
Post a Comment