قطعہ
در ہجوِہم نشینانِ خود
دا دریغا کہ ہم نشیں میرے
میرا طرز بیاں چراتے ہیں
حیف صد حیف نقدِ جاں کہ امیں
کیسہِ نقدِ جاں چراتے ہیں
امہاتِ یقیں کہ رحموں سے
نطفہ نطفہ گماں چراتے ہیں
خس و خاشاک طبع ہیں لیکن
دم شعلہِ فشاں چراتے ہیں
ان پہ ہنسیے کہ روئیے آخر
رایگاں، شایگاں چراتے ہیں
نقل کر کے کراہنے کی مرے
میری بیماریاں چراتے ہیں
معترف ہوں کمال کا ان کے
میرے دل کا سماں چراتے ہیں
مے کش ایسے کہ اپنے نشے میں
میری انگڑائیاں چراتے ہیں
کیا بتاؤں ہیں کیسے دیدہ دلیر
مجھ سے ہی مجھ کو ہاں چراتے ہیں
No comments:
Post a Comment