Tuesday, 16 July 2019

ہجر

ہم ترا ہجر منانے کے لیے نکلے ہیں
شہر میں آگ لگانے کے لیے نکلے ہیں

شہر کوچوں میں کرو حشر بپا آج کہ ہم
اس کے وعدوں کو بھلانے کے لیے نکلے ہیں

ہم سے جو روٹھ گیا ہے وہ بہت ہے معصوم
ہم تو اوروں کو منانے کے لیے نکلے ہیں

شہر میں شورہے، وہ یُوں کہ گماں کے سفری
اپنے ہی آپ میں آنے کے لیے نکلے ہیں

وہ جو تھے شہر تحیّر ترے پُر فن معمار
وہی پُر فن تجھے ڈھانے کے لیے نکلے ہیں

رہگزر میں تری قالین بچھانے والے
خون کا فرش بچھانے کے لیے نکلے ہیں

ہمیں کرنا ہے خداوند کی امداد سو ہم
دیر و کعبہ کو لڑانے کے لیے نکلے ہیں

سرِ شب اک نئی تمثیل بپا ہونی ہے
اور ہم پردہ اٹھانے کے لیے نکلے ہیں

ہمیں سیراب نئی نسل کو کرنا ہے سو ہم
خون میں اپنے نہانے کے لیے نکلے ہیں

ہم کہیں کے بھی نہیں پر یہ ہے رُوداد اپنی
ہم کہیں سے بھی نہ جانے کے لیے نکلے ہیں 

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment