Tuesday, 16 July 2019

خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے

خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مر  جانے  کو  جی  چاہتا ہے

گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں جانے کیوں
شام ہوتی ہے  تو گھر جانے کو  جی چاہتا ہے

ڈوب جاوں تو کوئ موج نشاں تک نہ بتائے
ایسی ندی  میں  اتر جانے  کو  جی  چاہتا ہے

کبھی مل جائے تو رستے کی تھکن 
جاگ پڑے
ایسی منزل  سے  گزر جانے کو  جی  چاہتا ہے

وہی پیماں جو جی کو خش آیا تھا بہت
اسی پےماں سے مکر جانے کو  جی چاہتا ہے

افتخار عارف

No comments:

Post a Comment