Saturday, 27 July 2019

احساس

احساس                           

یہ وہ چیز ہے یہ ہمارے اندر تب پیدا ہوتی ہے جب ہمیں یقین آجاے کہ ، میں ہی ہوں جو صرف اور صرف میری ذات کے ساتھ مخلص ہوں، یہ بات صرف اور صرف اپنی ذات کو نکھار کر ایک ایسے شکس کو وجود میں لاتی ہے ،جو تھک ہار کے جب خود میں صرف خود کو دیکھتا ہے، پھر وہ اپنے اندر کی آواز کو سنتا ہے، ہاں اسے یوں بھی کہ سکتے ہیں، ہمے جب بھوک لگتی ہے تو ہم کھانا کھاتے  ہیں اور خود میں چل رہی بھوک کی تڑپ کو کم کرتے ہیں. ایسا نہیں ہوتا بھوک ہمے لگی ہے اور ہم یہ سوچ کے خود کو تسلی دیں کہ سامنے بیٹھے شکس نے کھانا کھا لیا ہے اور بھوک ہماری ختم ہو گئی.
صرف اور صرف بھوک ہی ہے جو یہ احساس پیدا کرتی ہے...
جو لوگ خود کچھ کھا لیتے ہیں وہ خود کو پر سکون اور جو دوسروں کو صرف دیکھتے ہیں وہ ہمیشہ ....
بات صرف اتنی سی ہے جب تک خود کچھ نہیں کھائیں گے، خود کو پر سکون نہیں کریں گے، تب تک دوسروں کو کیسے کھیلاین گے؟ فقط صرف اتنا کچھ لوگ اس بات کو وقتاً فوقتاً سمجھ جاتے ہیں. جو سمجھ جاتے ہیں ان کی زندگی پر سکون اور کامیاب رہ کر گذرتی ہے!

مکان براۓ فروخت

*# اخبار میں اشتہار پڑھا:*

# *"مکان براۓ فروخت"*

# میں نے پتہ نوٹ کر کےپہلے مکان کا بیرونی جائزہ لیا اور پھر ہمراہ ایک پارٹی کو لے کر گیا جو مطلوبہ مکان خریدنا چاہتی تھی جیسے ھی ہم لوگ اس گھر کے دروازے پر پہنچے ایک عمر رسیدہ بزرگ نے ہمیں اندر آنے کی دعوت دی اور ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کا کہا۔۔۔ کچھ دیر بعد ایک عمر رسیدہ خاتون خانہ چاۓ کی ٹرالی سجاۓ ہوۓ ڈرائنگ روم میں آپہنچیں جس پر چاۓ کے علاوہ گاجر کا حلوہ ،نمکو ،بسکٹ اور کچھ مٹھائی بھی رکھی ہوئی تھی۔ اتنے زیادہ لوازمات دیکھ کرایسا لگتا تھا گویا ہم اجنبی نہیں بلکہ ان کے خاص مہمان ھوں۔
# وہ دونوں میاں بیوی ہمارے سامنے بیٹھ گئے اور ہمیں چاۓ نوش کرنے کی دعوت دی۔ مجھے احساس ہوا کہ شاید بزرگ میاں بیوی کو کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔
# میں نے ان سے کہا کہ ہم مکان کی بات چیت کرنے آئے ہیں اور ہماری آج پہلی ملاقات ہے پھرآپ نے اتنا تکلف کیوں کیا؟
# بابا جی نے دھیمے لہجے میں کہا ’’بیٹا آپ چاۓ نوش فرمائیں مکان کی بات بعد میں ہوتی رہے گی‘‘ ہم سب لوگ چاۓ سے لطف اندوز ہوتے رھے اور ساتھ کچھ گفتگو کرتے رھے۔ وہ دونوں کافی خوش مزاج لوگ تھے اور بہت اچھی گفتگو کرتے تھے۔ چائے کے بعد بھی جب کچھ دیر تک انہوں نے مکان کا تذکرہ نہ چھیڑا تو میں نے خود ہی بابا جی سے پوچھا ’’اب مکان کی بات کریں؟‘‘
# جی جی آئیے۔۔۔ تشریف لائیے آپ کو مکان اندر سے چیک کروادوں۔۔۔‘‘ انہوں نے تفصیل سے ہمیں پورا مکان دکھایا،
# ’’یہ مکان آپ کتنے میں دیں گے؟‘‘ میرے سوال پربابا جی نے کہا مکان کی قیمت پچاس لاکھ روپے ہے۔ میں حیران ہو کر بولا ’’بابا جی آپ کا مکان تو تیس لاکھ روپے کا بھی نہیں اور آپ پچاس لاکھ مانگ رہے ہیں؟ اس سے پہلے آپ نے ہماری پرتکلف مہمانداری کر کے ہم پراحسان کیا ہے اوراب مکان کی قیمت بھی مارکیٹ سے بہت زیادہ مانگی ہے۔ لہٰذا ہمارا سودا نہیں ہو سکتا‘‘ تو بابا جی نے کہا ’’کوئی بات نہیں بیٹا یہ کھانا پینا کچھ نہیں انسان اپنے نصیب کا کھاتا ہے۔‘‘ خیر ہم دو تین گھنٹے وہاں گزار کر خالی ہاتھ واپس لوٹ آئے۔
# دو مہینے بعد میں نے اخبار میں پھر سے اسی مکان کی فروخت کا اشتہار پڑھا اور تعجب ہوا کہ ابھی تک بابا جی کا مکان نہیں بِکا۔  دوبارہ  فون پر ان سے رابطہ کرکے ایک دوسری پارٹی کو ساتھ لے کر بابا جی کا مکان دیکھنے چلا گیا۔
# جیسےہی دروازہ کھٹکھٹایا تو بابا جی نے ایک بار پھر پُر تپاک طریقے سے اندر آنے کی دعوت دی اور ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور کچھ دیر بعد وہی خاتون خانہ اسی طرح لوازمات سے بھری چاۓ کی ٹرالی لیے ہماری طرف آ رہی تھیں۔۔۔
# میں نے بے ساختہ کہا‘ ’’بابا جی آپ ہر آنے والے کے لیے اتنا تکلف کیوں کرتے ہیں؟ آپ مکان کتنے میں بیچنا چاھتے ہیں۔۔۔؟‘‘
# بابا جی نے وہی جواب دیا ’’آپ چاۓ نوش فرمائیں مکان کی بات بعد میں کرتے ہیں۔ پہلے کی طرح اس بار بھی چاۓ وغیرہ کے بعد کافی وقت ان سے  گفتگو میں گزر گیا اور جب میں نے بابا جی سے مکان کی بات کرنا چاہی تو بابا جی نے پھر پچاس لاکھ کی ڈیمانڈ کر دی۔ مجھے کچھ غصہ بھی آیا اور حیرت بھی ہوئی کہ یہ بابا جی دماغی مریض لگتےہیں جو ہر آنے والے پر ہزار بارہ سو روپے لُٹا دیتے ہیں۔ خیر ہم نے اجازت طلب کی اور وہاں سے واپس آ گئے۔
# اس بات کو کافی ماہ گزر گئے کہ ایک دن میرے ایک دوست کا جو خود بھی پراپرٹی ڈیلر تھا‘ مجھے فون آیا کہ ایک مکان کافی اچھا مل رھا ہے، اگر ارادہ ہے اور تم رکھنا چاہو تو چلو ساتھ  تمہیں مکان دکھا دوں۔۔۔
# جب میں اس کے ساتھ گیا تو وہ وہی بابا جی والا مکان تھا۔ میں نے اپنے دوست کو ہنستے ہوے بتایا یہ بابا جی کا مکان ہے اور وہ بابا جی پاگل ہیں شاید- پھر میں نے اپنے دوست کو پچھلے دونوں واقعات سناۓ تو اس نے کہا ’’اس بات میں کچھ نہ کچھ راز تو ضرور ہے چلو پتہ کرتےہیں‘‘
# دروازہ کھولتے ہی بابا جی کی نظر مجھ پر پڑی انہوں نے مجھے گلے سے لگایا اور پہلے کی طرح اس بار بھی ڈرائنگ روم میں لے گئے۔ کچھ دیر بعد وہی خاتون لوازمات سے لدی پھندی چاۓ کی ٹرالی  ہماری طرف لاتی ہوئی دکھائی دیں جو شاید خصوصی طور پر پہلے سے تیار کر کے رکھے ہوئے تھے۔
#  بابا جی نےہمیں چاۓ نوش کرنے کی دعوت دی تو میں نے کہا بابا جی آج ھم چاۓ تب تک نہیں پیئیں گے جب تک آپ ہمیں یہ نہیں بتاتے کہ آپ مکان کی فروخت کا اشتہار تو دیتے رہتے ہیں لیکن مکان فروخت نہیں کرتے اور جو بھی مکان دیکھنے آتا ہے اس کی خاص مہمانوں کی طرح تواضح کر کے واپس بھیجتے ہیں‘ آخر ماجرا کیا ہے ؟
# یہ سن کر بابا جی نے پہلے خاموش نگاہوں سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور پھر اداس لہجے میں مجھ سے مخاطب ہوئے‘ ’’بیٹا یہ مکان میں نے عمر بھر کی جمع پونجی سے اپنے بچوں کے لیے بنایا ہے، ھم نے مکان نہیں بیچنا، ہم تنہائی کے مارے صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے گھر کوئی آتا جاتا رہے اور ہم بھی کسی سے ملیں، اس سے ہم باتیں کریں اور کوئی ھم سے باتیں کرے۔  ہم بوڑھے ہیں لاچار ہیں ھمارے 3 بیٹے ہیں جنھیں ساری عمر محنت کر کے ہم نے اچھی تعلیم دلوائی اوراب وہ تینوں ملک سے باہر ہیں‘ لیکن ہمارے لیے نہ ہونے کے برابر ہیں۔
#  ہم  دو بوڑھے اپنے آپ کو اور اس گھر کی خالی دیواروں کو دیکھ دیکھ کر اکتا گئے ہیں اس لیے ہم نے سوچا کہ اپنی اس اداسی کو لوگوں کی تواضح سے ختم کریں،  ۔ چلو کسی بہانے سہی، لوگ ہم سے ملتے تو رہیں گے۔
# ان کی باتیں سن کر میرا دل پسیج گیا اور میں نےسوچا بڑھاپا اور اکیلا پن ان دونوں چیزوں کے ساتھ زندگی کس قدر کٹھن ہے۔ اُدھر بابا جی کہہ رہے تھے ’’بیٹا دنیا کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئیے سب کچھ  پاس ہے لیکن بڑھاپے میں اصل سہارا اولاد کا ساتھ ہی دیتا ہے-‘‘

*# براہ کرم خیال کیجئے کہ بڑھاپے میں بوڑھے والدین کو آپکے پیسے کی نہیں بلکہ آپکی ضرورت زیادہ ہوتی ھے۔ لہذا والدین کو زیادہ سے زیادہ وقت دیں۔۔۔*

سنہری باتیں

✍درخت پر
اوقات سے زیادہ
پھل لگ جائیں
تو اس کی ڈالیاں
ٹوٹنا شروع ہو جاتی ہیں

انسان کو اوقات سے
زیادہ مل جائے
تو وہ رشتوں کو
توڑنا شروع کر دیتا ہے
انجام آہستہ آہستہ
درخت اپنے پھل سے
محروم ہو جاتا ہے

✍الفاظ کا چناؤ
سوچ سمجھ کر کریں
جب آپ بات
کر رہے ہوتے ہیں
تو آپ کے الفاظ...
آپ کے خاندان کا پتہ،
مزاج اور آپ کی
تربیت کا پتہ
دے رہے ہوتے ہیں

✍بچہ بڑا ہو کر
سمجھ جاتا ہے
کہ ابا کی پابندیاں
ٹھیک ہی تھیں

اور بندہ مرنے کے بعد
سمجھ جائے گا
کہ اس کے رب کی
پابندیاں ٹھیک تھیں

✍زندگی
کوئی چائے کا کپ
تھوڑی ہوتی ہے
کہ ایک چمچہ
شکر ملا کر
ذائقے کی تلخی کو
دور کر دیا جائے

زندگی کو تو
عمر کے آخری لمحے تک
گھونٹ گھونٹ
پینا پڑتا ہے
چاہے تلخی کتنی
زیادہ کیوں نہ
ہو جائے

✍تہجد پڑھتے ہیں
مگر اپنے بھائی
سے بول چال
نہیں رکھتے
ہر نیک کام کرتے ہیں
مگر غیبت
نہیں چھوڑتے
اپنی نیکیاں
ایسی تھیلی میں
جمع نہ کریں
جس میں سوراخ ہو

✍اگر تمہیں
ایک دوسرے کے
اعمال کا پتہ
چل جائے
تو تم ایک دوسرے کو
دفن بھی نہ کرو
اللہ نے
تمہارے عیب
چھپا رکھے ہیں
اس پر شکر ادا کرو
اور دوسروں کے عیبوں کو بھی چھپانے کی عادت ڈالو
کیونکہ برائیاں آپ میں بھی ہیں اور زبانیں دوسروں کے پاس بھی ہیں

✍کچھ لوگ
اپنے لئیے
ساری ساری رات
جنت کی دعائیں
مانگتے ہیں
لیکن دوسروں کی
زندگی انہوں نے
جہنم بنائی
ہوئی ہوتی ہے

✍ہم کسی کے
دل میں
جھانک نہیں سکتے
یہ جان نہیں سکتے
کہ کون ہمارے ساتھ
کتنا مخلص ہے
لیکن وقت اور روئیے
جلد ہی یہ
احساس دلا دیتے ہیں

✍اپنی طرف سے
بھرپور کوشش کیجئیے
سخت محنت کیجئیے
طریقہ صحیح اور جائز
اختیار کیجئیے
دعا کیجئیے
پر امید رہئیے
اور نتیجہ
اللہ تعالی پر
چھوڑ دیجئیے

✍زبان دراز لوگوں سے
ڈرنے کا
کوئی فائدہ نہیں
وہ تو شور ڈال کر
اپنی بھڑاس
نکال لیتے ہیں
لیکن ڈرو
ان لوگوں سے
جو سہہ جاتے ہیں
کیونکہ وہ معاملہ
اللہ کے سپرد
کر دیتے ہیں
جہاں ناانصافی کی
گنجائش نہیں ہوتی
وہاں دیر ہے
اندھیر کبھی نہیں

✍اگر آپ
سوچ رہے ہیں کہ....
ہر چیز
آپ کے ہاتھوں سے
نکل رہی ہے
اور حالات
آپ کے موافق
نہیں ہیں
تو ایک دفعہ
اس درخت کے
بارے میں ضرور سوچنا
جو ایک ایک کر کے
اپنے تمام پتے
کھو دیتا ہے
لیکن پھر بھی
کھڑا رہتا ہے
اس امید پر کہ...
بہار کے دن آئیں گے

✍مجھے
اتنا عجیب لگتا ہے ناں...
کہ لوگ
ہماری زندگی کا
ایک صفحہ پڑھ کے
ہمارے بارے میں
پوری کتاب
خود ہی
لکھ لیتے ہیں

✍کوئی یہ کیسے
سوچ سکتا ہے
کہ حساب نہیں ہوگا
کہ وہ بخشا جائے گا
یاد رہے
حساب دینا ہوگا
ایک ایک آہ کا،
آنسو کا،
تڑپ کا،
بے حسی کا
اور بے رحمی کا
حقوق اللہ کے بعد
حقوق العباد کا معاملہ
بھی بہت سخت ہے
*افسوس*!
کچھ نہیں...
سبھی لوگ
یہ بات
بھلائے بیٹھے ہیں

ماں

" ماں "
کل پھیکے کمہار کے گھر کے سامنے ایک نئی چمکتی ہوئی گاڑی کھڑی تھی۔۔۔!!
سارے گاؤں میں اس کا چرچا تھا۔۔۔!!
جانے کون ملنے آیا تھا۔۔۔!!
میں جانتا تھا پھیکا پہلی فرصت میں آ کر مجھے سارا ماجرا ضرور سناۓ گا۔۔۔! وہی ہوا شام کو بیٹھک میں آ کر بیٹھا ہی تھا کہ پھیکا چلا آیا۔۔۔! حال چال پوچھنے کے بعد کہنے لگا۔۔۔! صاحب جی کئی سال پہلے کی بات ہے آپ کو یاد ہے ماسی نوراں ہوتی تھی جو پٹھی پر دانے بھونا کرتی تھی۔۔۔! جس کا اِکو اِک پُتر تھا وقار۔۔۔! میں نے کہا ہاں یار میں اپنے گاؤں کے لوگوں کو کیسے بھول سکتا ہوں۔۔۔!

اللہ آپ کا بھلا کرے صاحب جی وقار اور میں پنجویں جماعت میں پڑھتے تھے۔۔۔! سکول میں اکثر وقار کے ٹِڈھ میں پیڑ رہتی تھی۔۔۔! صاحب جی اک نُکرے لگا روتا رہتا تھا۔۔۔! ماسٹر جی ڈانٹ کر کار بھیج دیتے تھے کہ جا حکیم کو دکھا اور دوائی لے۔۔۔! اک دن میں آدھی چھٹی کے وقت وقار کے پاس بیٹھا تھا۔۔۔! میں نے اماں کے ہاتھ کا بنا پراٹھا اور اچارکھولا۔۔۔! صاحب جی آج وی جب کبھی بہت بھوک لگتی ہے نا۔۔۔! تو سب سے پہلے اماں کے ہاتھ کا بنا پراٹھا ہی یاد آتا ہے۔۔۔! اور سارے پنڈ میں اُس پراٹھے کی خوشبو بھر جاتی ہے۔۔۔! پتہ نئیں صاحب جی اماں کے ہاتھ میں کیا جادو تھا۔۔۔!

صاحب جی وقار نے پراٹھے کی طرف دیکھا اور نظر پھیر لی۔۔۔! اُس ایک نظر نے اُس کی ٹِڈھ پیڑ کے سارے راز کھول دیئے۔۔۔! میں نے زندگی میں پہلی بار کسی کی آنکھوں میں آندروں کو بھوک سے بلکتے دیکھا۔۔۔! صاحب جی وقار کی فاقوں سے لُوستی آندریں۔۔۔! آنسوؤں کے سامنے ہاتھ جوڑے بیٹھی تھیں جیسے کہتی ہوں۔۔۔! اک اتھرو بھی گرا تو بھرم ٹوٹ جاۓ گا۔۔۔! وقار کا بھرم ٹوٹنے سے پہلے میں نے اُس کی منتیں کر کے اُسے کھانے میں شریک کر لیا۔۔۔! پہلی بُرکی ٹِڈھ میں جاتے ہی وقار کی تڑپتی آندروں نے آنکھوں کے ذریعہ شکریہ بھیج دیا۔۔۔! میں نے چُپکے سے ہاتھ روک لیا اور وقار کو باتوں میں لگاۓ رکھا۔۔۔!اس نے پورا پراٹھا کھا لیا۔۔۔! اور پھراکثر ایسا ہونے لگا۔۔۔! میں کسی نہ کسی بہانے وقار کو کھانے میں شریک کرنے لگا۔۔۔! وقار کی بھوکی آندروں کے ساتھ میرے پراٹھے کی پکی یاری ہو گئی۔۔۔! اور میری وقار کے ساتھ۔۔۔! خورے کس کی یاری زیادہ پکی تھی۔۔۔؟ میں سکول سے کار آتے ہی بھوک بھوک کی کھپ مچا دیتا۔۔۔! ایک دن اماں نے پوچھ ہی لیا۔۔۔! پُتر تجھے ساتھ پراٹھا بنا کر دیتی ہوں کھاتا بھی ہے کہ نہیں۔۔۔! اتنی بھوک کیوں لگ جاتی ہے۔۔۔؟ میرے ہتھ پیر پھول جاتے ہیں۔۔۔! آتے ساتھ بُھوک بُھوک کی کھپ مچا دیتا ہے۔۔۔! جیسے صدیوں کا بھوکا ہو۔۔۔!

میں کہاں کُچھ بتانے والا تھا صاحب جی۔۔۔! پر اماں نے اُگلوا کر ہی دم لیا۔۔۔! ساری بات بتائی اماں تو سن کر بلک پڑی اور کہنے لگی۔۔۔! کل سے دو پراٹھے بنا دیا کروں گی۔۔۔! میں نے کہا اماں پراٹھے دو ہوۓ تو وقار کا بھرم ٹوٹ جاۓ گا۔۔۔!میں تو کار آکر کھا ہی لیتا ہوں۔۔۔! صاحب جی اُس دن سے اماں نے پراٹھے کے ول بڑھا دیئے اور مکھن کی مقدار بھی۔۔۔! کہنے لگی وہ بھی میرے جیسی ماں کا پتر ہے۔۔۔! مامتا تو وکھری وکھری نہیں ہوتی پھیکے۔۔۔! مائیں وکھو وَکھ ہوئیں تو کیا۔۔۔؟

میں سوچ میں پڑ گیا۔۔۔! پانچویں جماعت میں پڑھنے والے پھیکے کو بھرم رکھنے کا پتہ تھا۔۔۔! بھرم جو ذات کا مان ہوتا ہے۔۔۔! اگرایک بار بھرم ٹوٹ جاۓ تو بندہ بھی ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔! ساری زندگی اپنی ہی کرچیاں اکٹھی کرنے میں گزر جاتی ہے۔۔۔! اور بندہ پھرکبھی نہیں جُڑ پاتا۔۔۔! پھیکے کو پانچویں جماعت سے ہی بھرم رکھنے آتے تھے۔۔۔! اِس سے آگے تو وہ پڑھ ہی نہیں سکا تھا۔۔۔! اور میں پڑھا لکھا اعلی تعلیم یافتہ۔۔۔! مجھے کسی سکول نے بھرم رکھنا سکھایا ہی نہیں تھا۔۔۔!

صاحب جی اس کے بعد امّاں بہانے بہانے سے وقار کے کار جانے لگی۔۔۔! “دیکھ نوراں ساگ بنایا ہے چکھ کر بتا کیسا بنا ہے” وقار کی اماں کو پتہ بھی نہ چلتا اور اُن کا ایک ڈنگ ٹپ جاتا۔۔۔! صاحب جی وقار کو پڑھنے کا بہت شوق تھا پھر اماں نے مامے سے کہہ کر ماسی نوراں کو شہر میں کسی کے کار کام پر لگوا دیا۔۔۔! تنخواہ وقار کی پڑھائی اور دو وقت کی روٹی طے ہوئی۔۔۔! اماں کی زندگی تک ماسی نوراں سے رابطہ رہا۔۔۔! اماں کے جانے کے چند ماہ بعد ہی ماسی بھی گزر گئی۔۔۔! اُس کے بعد رابطہ ہی کُٹ گیا۔۔۔!

کل وقار آیا تھا۔۔۔! ولایت میں رہتا ہے جی واپس آتے ہی ملنے چلا آیا۔۔۔! پڑھ لکھ کر بہت بڑا افسر بن گیاہے۔۔۔! مجھے لینے آیا ہے صاحب جی کہتا تیرے سارے کاغزات ریڈی کر کے پاسپورٹ بنوا کر تجھے ساتھ لینے آیا ہوں

اور ادھر میری اماں کے نام پر لنگر کھولنا چاہتا ہے۔۔۔!

صاحب جی میں نے حیران ہو کر وقار سے پوچھا۔۔۔! یار لوگ اسکول بنواتے ہیں ہسپتال بنواتے ہیں تو لنگر ہی کیوں کھولنا چاہتا ہے اور وہ بھی امّاں کے نام پر۔۔۔؟

کہنے لگا۔۔۔! پھیکے بھوک بہت ظالم چیز ہے چور ڈاکو بنا دیا کرتی ہے۔۔۔! خالی پیٹ پڑھائی نہیں ہوتی۔۔۔! ٹِڈھ پیڑ سے جان نکلتی ہے۔۔۔! تیرے سے زیادہ اس بات کو کون جانتا ہے پھیکے۔۔۔! سارے آنکھیں پڑھنے والے نہیں ہوتے۔۔۔! اور نہ ہی تیرے ورگے بھرم رکھنے والے۔۔۔! پھر کہنے لگا۔۔۔! یار پھیکے تجھے آج ایک بات بتاؤں۔۔۔! جھلیا میں سب جانتا ہوں۔۔۔! چند دنوں کے بعد جب پراٹھے کے بل بڑھ گئے تھے۔۔۔! اور مکھن بھی۔۔۔! آدھا پراٹھا کھا کر ہی میرا پیٹ بھرجایا کرتا۔۔۔! اماں کو ہم دونوں میں سے کسی کا بھی بھوکا رہنا منظور نہیں تھا پھیکے۔۔۔! وقار پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔۔۔! اماں یہاں بھی بازی لے گئی صاحب جی۔۔۔!

اور میں بھی اس سوچ میں ڈُوب گیا کہ لُوستی آندروں اور پراٹھے کی یاری زیادہ پکی تھی یا پھیکے اور وقار کی۔۔۔! بھرم کی بنیاد پر قائم ہونے والے رشتے کبھی ٹوٹا نہیں کرتے۔۔۔!

پھیکا کہہ رہا تھا مُجھے امّاں کی وہ بات آج بھی یاد ہے صاحب جی۔۔۔! اُس نے کہا تھا۔۔۔! مامتا تو وکھری وکھری نہیں ہوتی پھیکے۔۔۔! مائیں وکھو وَکھ ہوئیں تو کیا۔۔۔! اُس کے ہاتھ تیزی سے پراٹھے کو ول دے رہے تھے۔۔۔! دو روٹیوں جتنا ایک پیڑا لیا تھا امّاں نے صاحب جی۔۔۔! میں پاس ہی تو چونکی پر بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا۔۔۔! روٹی بیلتے بیلتے نماز کا سبق پڑھاتی میرے ساتھ نکیاں نکیاں گلاں کرتی۔۔۔! آج بھی ویہڑے میں پھرتی نظر آتی ہے۔۔۔! پھیکا ماں کو یاد کر کے رو رہا تھا۔۔۔!
سورج کی پہلی کرن جیسا روشن چہرہ تھا اماں کا صاحب جی۔۔۔! باتیں کرتے کرتے پھیکا میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اُس پل میں لے گیا اور ایک دم میرے سامنے کسی پُرانْی فلم کی طرح سارا منظر بلیک اینڈ وائٹ ہو گیا۔۔۔! زندگی کے کینوس پر صرف ایک ہی رنگ بکھرا تھا مامتا کا رنگ۔۔۔!!😭😭

Wednesday, 24 July 2019

Dewar E Shab by Aalia Bukhari

Dewar E Shab by Aalia Bukhari




The book Dewar E Shab is written by Aalia Bukhari .Aalia Bukhari have also written some other books. You can check his other work here
If you are in search of the Dewar E Shab by Aalia Bukhari to download then you are at right page because here we have published the book. You can download pdf here





Tuesday, 23 July 2019

Ik Sitam Aur Meri Jaan Novel pdf Download or read online




Looking for the Ik Sitam Aur Meri Jaan Novel by Zareen Qamar? Here we have uploaded the Ik Sitam Aur Meri Jaan pdf download or read online.




Thanda Gosht by Saadat Hasan Manto

Thanda Gosht by Saadat Hasan Manto


Thanda Gosht by Saadat Hasan Manto




Talakh Tursh Shireen by Saadat Hasan Manto

Talakh Tursh Shireen by Saadat Hasan Manto


Talakh Tursh Shireen by Saadat Hasan Manto



Tahira Say Tahir by Saadat Hasan Manto



Tahira Say Tahir by Saadat Hasan Manto



Phundnay (Afsanay) by Saadat Hasan Manto

Phundnay (Afsanay) by Saadat Hasan Manto


Phundnay (Afsanay) by Saadat Hasan Manto





Noor Jehan Saroor Jehan by Saadat Hasan Manto

Noor Jehan Saroor Jehan by Saadat Hasan Manto


Noor Jehan Saroor Jehan by Saadat Hasan Manto




Manto Ke So Afsanay by Saadat Hasan Manto

Manto Ke So Afsanay by Saadat Hasan Manto


Manto Ke So Afsanay by Saadat Hasan Manto




Manto Kay Mazameen by Saadat Hasan Manto

Manto Kay Mazameen by Saadat Hasan Manto

Manto Kay Mazameen by Saadat Hasan Manto




Loud Speaker by Saadat Hasan Manto

Loud Speaker by Saadat Hasan Manto


Loud Speaker by Saadat Hasan Manto



Lazzat E Sang by Saadat Hasan Manto

Lazzat E Sang by Saadat Hasan Manto



Lazzat E Sang by Saadat Hasan Manto


Khali Botlain Khali Dabbay by Saadat Hasan Manto

Khali Botlain Khali Dabbay by Saadat Hasan Manto


Khali Botlain Khali Dabbay by Saadat Hasan Manto




Aik Mard by Saadat Hasan Manto



Aik Mard by Saadat Hasan Manto

Aik Mard by Saadat Hasan Manto



Chughad by Saadat Hasan Manto



Chughad by Saadat Hasan Manto


Chughad by Saadat Hasan Manto

Burqay by Saadat Hasan Manto

Burqay by Saadat Hasan Manto


Burqay by Saadat Hasan Manto


Baghair Ijazat by Saadat Hasan Manto

Baghair Ijazat by Saadat Hasan Manto

Baghair Ijazat by Saadat Hasan Manto pdf

Bagher Unwan by Saadat Hasan Manto

Bagher Unwan by Saadat Hasan MantoYou can download pdf of Bagher Unwan by Saadat Hasan Manto or read online. Here is the amazing novel by "Saadat Hasan Manto" named "Bagher Unwan". The Novel is in urdu language. This is one of the best work by this author.






Atish Paray by Saadat Hasan Manto

Atish Paray by Saadat Hasan MantoYou can download pdf of Atish Paray by Saadat Hasan Manto or read online. Here is the amazing novel by "Saadat Hasan Manto" named "Atish Paray". The Novel is in urdu language. This is one of the best work by this author.








اس سے کہہ دو کہ وہ نہیں روئے

اس سے کہہ دو کہ وہ نہیں روئے
اس سے کہہ دو کہ مر گئی ہوں میں

بزرگ خاتون

ﺧﺎﺗﻮﻥ ﻧﮯ ﻓﻼﺋﯿﭧ ﮨﻤﻮﺍﺭ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﮬﺎ ﺩﯾﺎ،ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﮐﺘﺎﺏ ﺑﻨﺪ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮔﺮﻡ ﺟﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﻼﯾﺎ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺑﺰﺭﮒ
ﺗﮭﯿﮟ، ﻋﻤﺮ ﺳﺎﭨﮫ ﺍﻭﺭ ﺳﺘﺮ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﮨﻮ ﮔﯽ ﻭﮦ ﺷﮑﻞ ﺳﮯ ﭘﮍﮬﯽ ﻟﮑﮭﯽ
ﺍﻭﺭ ﺳﻤﺠﮫ ﺩﺍﺭ ﺑﮭﯽ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ، ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﺘﺎﺏ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ
ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ”ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﻋﺮﺑﯽ ﮐﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﮨﮯ“ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ
ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ”ﻧﮩﯿﮟ ‘‘ ﯾﮧ ﺍُﺭﺩﻭ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﮨﮯ“ ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍﺋﯿﮟ، ﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎﺗﮫ
ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﮬﺎﯾﺎ،ﻣﻼﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﺮ ﺗﮏ ﺟﮭﻼ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﯽ ” ﺗﻢ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﮨﻮ“ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮔﺮﻡ ﺟﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ”ﺟﯽ ﺑﺎﻟﮑﻞ“
ﻭﮦ ﺣﻘﯿﻘﺘﺎً ﺧﻮﺵ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ، ﻓﻼﺋﯿﭧ ﻟﻤﺒﯽ ﺗﮭﯽ ﭼﻨﺎﮞ ﭼﮧ ﮨﻢ ﺩﯾﺮ ﺗﮏ ﮔﻔﺘﮕﻮ
ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﮯ، ﭘﺘﮧ ﭼﻼ ﺟﯿﻨﺎ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﮨﯿﮟ، ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﯽ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﮨﯿﮟ، ﻭﮦ ﻃﺎﻟﺐ
ﻋﻠﻤﻮﮞ ﮐﻮ ” ﻋﺎﻟﻤﯽ ﺗﻨﺎﺯﻋﮯ“ ﭘﮍﮬﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﭼﻨﺎﮞ ﭼﮧ ﻭﮦ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﺳﮯ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﻭﺍﻗﻒ ﮨﯿﮟ، ﻭﮦ ﻗﺎﺋﺪﺍﻋﻈﻢ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻠﯽ ﺟﻨﺎﺡ ﺍﻭﺭ ﻣﮩﺎﺗﻤﺎ ﮔﺎﻧﺪﮬﯽ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﺗﮭﯿﮟ، ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ”ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ ﮔﺎﻧﺪﮬﯽ ﮐﻮ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﮯ“
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ”ﺟﯽ ﮨﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮔﺎﻧﺪﮬﯽ ﮐﯽ ﺍٓﭨﻮﺑﺎﺋﯿﻮ ﮔﺮﺍﻓﯽ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﮬﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺕ ﺳﻤﺎﺟﯽ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺎ“
ﺟﯿﻨﺎ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮔﺎﻧﺪﮬﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺕ ﺳﻤﺎﺟﯽ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﭼﮭﺎ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ” ﭘﻮﭖ ﮔﺮﯾﮕﻮﺭﯼ ﺍﻭﻝ ﻧﮯ 590 ﺀﻣﯿﮟ ﺳﺎﺕ ﺧﻮﻓﻨﺎﮎ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﯽ ﻓﮩﺮﺳﺖ ﺟﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ،ﺍﻥ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺳﺎﺕ ﮔﻨﺎﮦ ﮨﻮﺱ،ﺑﺴﯿﺎﺭ ﺧﻮﺭﯼ، ﻻﻟﭻ، ﮐﺎﮨﻠﯽ ،ﺷﺪﯾﺪ ﻏﺼﮧ، ﺣﺴﺪ ﺍﻭﺭﺗﮑﺒﺮ ﮨﻼﮎ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﮔﺮ ﺍﻥ ﺳﺎﺕ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﭘﺮ ﻗﺎﺑﻮ ﭘﺎ ﻟﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺷﺎﻥ ﺩﺍﺭ، ﺑﮭﺮﭘﻮﺭ ﺍﻭﺭ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭﺗﺎ ﮨﮯ،
ﮔﺎﻧﺪﮬﯽ ﺟﯽ ﻧﮯ ﭘﻮﭖ ﮔﺮﯾﮕﻮﺭﯼ ﮐﮯ ﺳﺎﺕ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﯽ ﻓﮩﺮﺳﺖ ﺳﮯ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮ ﮐﺮ 1925 ﺀﻣﯿﮟ ﺳﺎﺕ ﺳﻤﺎﺟﯽ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﯽ ﻓﮩﺮﺳﺖ ﺟﺎﺭﯼ ﮐﯽ،ﺍﻥ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﺗﮭﺎ، ﺟﺐ ﺗﮏ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ ﺍﻥ ﺳﺎﺕ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﭘﺮ ﻗﺎﺑﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﺗﺎ، ﻭﮦ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺘﺎ،ﮔﺎﻧﺪﮬﯽ ﺟﯽ ﮐﮯ ﺑﻘﻮﻝ ﺍﺻﻮﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺳﯿﺎﺳﺖ ﮔﻨﺎﮦ ﮨﮯ، ﮐﺎﻡ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺩﻭﻟﺖ ﮔﻨﺎﮦ ﮨﮯ، ﺿﻤﯿﺮ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺧﻮﺷﯽ ﮔﻨﺎﮦ ﮨﮯ، ﮐﺮﺩﺍﺭ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻋﻠﻢ ﮔﻨﺎﮦ ﮨﮯ، ﺍﺧﻼﻗﯿﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺗﺠﺎﺭﺕ ﮔﻨﺎﮦ ﮨﮯ، ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﮔﻨﺎﮦ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮔﻨﺎﮦ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﺳﺎﺕ ﺍﺻﻮﻝ ﺑﮭﺎﺭﺕ
ﮐﮯﻟﯿﮯﮔﺎﻧﺪﮬﯽ ﮐﺎ ﺳﻤﺎﺟﯽ ﺍﯾﺠﻨﮉﺍ ﺗﮭﺎ“
ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍﺋﯿﮟ، ﻣﺠﮭﮯ ﺗﮭﭙﮑﯽ ﺩﯼ
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ ”ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻗﺎﺋﺪﺍﻋﻈﻢ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻠﯽ ﺟﻨﺎﺡ ﮐﮯ ﺳﺎﺕ ﺍﺻﻮﻝ ﺑﮭﯽ
ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮ“ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ” ﻗﺎﺋﺪﺍﻋﻈﻢ ﭘﺮﯾﮑﭩﯿﮑﻞ ﺑﺎﺍﺻﻮﻝ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺗﮭﮯ،ﻭﮦ ﻓﺮﻣﻮﺩﺍﺕ ﭘﺮ ﯾﻘﯿﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ، ﭼﻨﺎﮞ ﭼﮧ
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺤﺮﯾﺮﯼ ﺍﯾﺠﻨﮉﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ“
ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺘﯽ ﺭﮨﯿﮟ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ” ﮔﺎﻧﺪﮬﯽ ﺍﻭﺭ ﻗﺎﺋﺪﺍﻋﻈﻢ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻕ ﺗﮭﺎ، ﮔﺎﻧﺪﮬﯽ ﻓﻼﺳﻔﺮﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻗﺎﺋﺪﺍﻋﻈﻢ ﭘﺮﯾﮑﭩﯿﮑﻞ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺗﮭﮯ، ﻭﮦ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﺟﺎﺋﮯ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﯾﻘﯿﻦ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ،ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ
ﺍﻗﻮﺍﻝ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻗﺎﺋﺪﺍﻋﻈﻢ ﮐﯽ ﻣﺜﺎﻟﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ“ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ،
ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯿﮟ ” ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﻣﺜﺎﻟﯿﮟ ﺳﻨﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﻮﮞ“
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ” ﻣﺜﻼً ﻗﺎﺋﺪﺍﻋﻈﻢ ﻧﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ ﮐﯽ، ﭘﻮﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮﮌﺍ، ﭘﻮﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﻗﺮﺑﺎﺀ ﭘﺮﻭﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ، ﭘﻮﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺭﺷﻮﺕ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﻟﯽ، ﭘﻮﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﺭﺟﺤﺎﻧﺎﺕ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺋﺶ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ‏( ﻭﮦ ﺳﻨﯽ ﺗﮭﮯ، ﻭﮨﺎﺑﯽ ﺗﮭﮯ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﻗﺎﺋﺪ ﻧﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎﻥ ﺧﺒﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﺩﯼ)، ﭘﻮﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻭﻋﺪﮮ ﮐﯽ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ ﮐﯽ، ﭘﻮﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﻤﺠﮭﻮﺗﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮﮌﺍ، ﭘﺮﻭﭨﻮﮐﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﺎ، ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﺭﻗﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﺋﯽ، ﭨﯿﮑﺲ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﭽﺎﯾﺎ،ﺍٓﻣﺪﻧﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﭙﺎﺋﯽ،ﺍﺻﻮﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﺳﻤﺠﮭﻮﺗﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ،ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺣﻖ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺴﯽ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺪﺗﻤﯿﺰﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ“ ۔
ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﯿﮟ ” ﻭﯾﻞ ﮈﻥ، ﺍٓﭖ ﭨﮭﯿﮏ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ، ﻭﮦ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺑﮩﺖ
ﺷﺎﻥ ﺩﺍﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺗﮭﮯ، ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺍﻧﺴﭙﺎﺋﺮ ﮨﻮﮞ“ ﻭﮦ ﺭﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ
ﺍٓﮨﺴﺘﮧ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﯿﮟ ”ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﺍٓﭖ ﺳﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﺳﻮﺍﻝ ﭘﻮﭼﮫ ﻟﻮﮞ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﻣﺎﺋﯿﻨﮉ
ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ“
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ”ﻧﮩﯿﮟ ﺿﺮﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﯿﮟ ‘ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﮞ“
ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯿﮟ ”ﮐﯿﺎ ﺍٓﭖ ﻗﺎﺋﺪﺍﻋﻈﻢ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ“
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ” ﺩﻝ ﻭ ﺟﺎﻥ ﺳﮯ“
وﮦ ﺑﻮﻟﯿﮟ ”ﺍٓﭖ ﭘﮭﺮ ﺑﺘﺎﺋﯿﮯ ﺍٓﭖ ﻣﯿﮟ
ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺎﺋﺪﺍﻋﻈﻢ ﮐﯽ ﮐﻮﻥ ﮐﻮﻥ ﺳﯽ ﺧﻮﺑﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ؟“
ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻝ ﻏﯿﺮ ﻣﺘﻮﻗﻊ ﺗﮭﺎ،ﻣﯿﮟ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ،
ﻭﮦ ﺷﺮﻣﻨﺪﮦ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍٓﮨﺴﺘﮧ ﺍٓﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻟﯿﮟ ”ﺍٓﭖ ﯾﮧ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﮟ،ﺍٓﭖ ﺻﺮﻑ ﯾﮧ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻗﻮﻡ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺎﺋﺪ ﮐﯽ ﮐﻮﻥ ﮐﻮﻥ ﺳﯽ ﺧﻮﺑﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﺑﻨﺎﯾﺎ“
ﻣﯿﮟ ﻣﺰﯾﺪ ﺷﺮﻣﻨﺪﮦ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ،ﻣﯿﺮﮮ
ﻣﺎﺗﮭﮯ ﭘﺮ ﭘﺴﯿﻨﮧ ﺍٓ ﮔﯿﺎ،ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﯿﮟ ”ﻣﯿﮟ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﯽ ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻠﻢ
ﮨﻮﮞ ‘ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻼﻡ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﺴﭙﺎﺋﺮ ﮨﻮﮞ ‘ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺩﮬﯽ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﺩﯾﮑﮫ
ﭼﮑﯽ ﮨﻮﮞ، ﺍٓﭖ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺩﻭ ﻋﻤﻠﯽ ‏(ﻣﻨﺎﻓﻘﺖ) ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﯿﮟ،ﺍٓﭖ ﻟﻮﮒ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻧﺒﯽ ؐ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﯿﺮﻭ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ،ﺍٓﭖ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺧﻠﻔﺎﺀﺍﻭﺭ ﺻﺤﺎﺑﮧؓ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺍٓﺋﯿﮉﯾﻞ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ،ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﻋﻤﻞ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﯼ ﺍٓﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﺑﯽ ﺑﮭﯽ ”ﺍﮈﺍﭘﭧ“ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ،ﺍٓﭖ ﻣﯿﮟ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﺍٓﺋﯿﮉﯾﻠﺰ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻮﺑﯽ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺍٓﺗﯽ ‘ ﺍٓﭖ ﻟﻮﮒ ﻗﺎﺋﺪ ﺍﻋﻈﻢ ﺟﯿﺴﯽ ﺷﺨﺼﯿﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺯ ﻋﻤﻞ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﯿﮟ،ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﻗﺎﺋﺪﺍﻋﻈﻢ ﮐﻮ ﻧﻮﭦ ﭘﺮ ﭼﮭﺎﭖ ﺩﯾﺎ، ﺍٓﭖ ﮨﺮ ﻓﻮﺭﻡ ﭘﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﺍﻥ ﮐﮯﻟﯿﮯ ﻟﮍﻧﮯ ﻣﺮﻧﮯ ﮐﮯﻟﯿﮯ ﺑﮭﯽ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﺍﻥ ﺟﯿﺴﺎ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﯼ ﺍٓﺗﯽ ﮨﮯ، ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﭼﻨﺎﮞ ﭼﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﮨﮯ ﺍٓﭖ ﺍﮔﺮ ﺍﺳﻼﻡ ﭘﮭﯿﻼﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ،ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ؐ ﺟﯿﺴﯽ ﻋﺎﺩﺗﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﺍﮔﺮ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﻮ ﺗﺮﻗﯽ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ،ﺗﻮ ﻗﺎﺋﺪﺍﻋﻈﻢ ﮐﮯ ﺍﺻﻮﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ،ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻣﻠﮏ ﯾﻮﺭﭖ ﺳﮯ ﺍٓﮔﮯ ﻧﮑﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ“ ﻭﮦ ﺭﮐﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻧﺮﻡ ﺍٓﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻟﯿﮟ ” ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﮨﺮ ﭘﮩﻠﯽ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻠﻤﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍٓﺋﯿﮉﯾﻠﺰ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﭼﮭﺘﯽ ﮨﻮﮞ،ﯾﮧ ﺟﺐ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍٓﺋﯿﮉﯾﻠﺰ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ،ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺘﯽ ﮨﻮﮞ ﺍٓﭖ ﻭﮦ ﺧﻮﺑﯿﺎﮞ ﮔﻨﻮﺍﺋﯿﮟ، ﺟﻮ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍٓﺋﯿﮉﯾﻠﺰ ﺳﮯ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮐﯿﮟ،ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻠﻤﻮﮞ ﮐﺎ ﺭﺩ ﻋﻤﻞ ﺍٓﭖ ﺟﯿﺴﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﺍٓﺋﯿﮉﯾﻞ ﮐﻮ ﺍٓﺋﯿﮉﯾﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﻮﮞ ﮔﯽ، ﺟﺐ ﺗﮏ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﮭﻠﮏ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺍٓﺗﯽ،ﺍٓﭖ ﺍﮔﺮ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍٓﺋﯿﮉﯾﻠﺰ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺍٓﺋﯿﮉﯾﻞ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍٓﭖ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺗﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮﻧﯽ ﭼﺎﮨﺌﯿﮟ ،ﻭﺭﻧﮧ ﺍٓﭖ ﻣﻨﺎﻓﻖ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﻣﻨﺎﻓﻖ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﺍﻭﺭ ﺍﭼﮭﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭﺗﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔
(منقول )