کچهـ اس ادا سے آج وه پہلو نشیں رہے
جب تک ہمارے پاس رہے، ہم نہیں رہے
یا رب کسی کی راز محبت کی خیر ہو
دست جنوں رہے نه رہے، آستیں رہے
درد غــم فـــراق کے یه سخت مــرحلیں
حیراں ہوں میں که پهر بهی تم اتنے حسیں رہے
جا اور کوئی ضبط کی دنیا تلاش کر
اے عشق ہم تو اب تیرے قابل نہیں رہے
الله رے چشم یار کے موجز بیانیاں
ہر ایک کا ہے گمان که مخاطب ہمیں رہے
اس عشق کے تلافی مافات دیکهنا
رونے کے حسرتیں ہیں جب آنسو نہیں رہے
ایمان و کفر اور نه دنیا و دین رہے
اے عشق شادباش که تنها ہمیں رہے
جگر مرادآبادی
No comments:
Post a Comment