کب تک نجات پائیں گے وہم و یقیں سے ہم
اُلجھے ہُوئے ہیں آج بھی دُنیا و دِیں سے ہم
یُوں بیٹھتے ہیں بزم میں خلوت گزِیں سے ہم
لے جائیں اپنے اشک بھی چُن کر زمِیں سے ہم
ہر روز اُن کے نام کے سَو پُھول کِھلتے ہیں
چُن کر قَفس میں لائے ہیں کلیاں کہیں سے ہم
جب تک تمھارے قدموں کی آہٹ نہیں سُنیں!
معلُوم اِس مکاں میں ، نہ ہوں گے مکِیں سے ہم
منظر، الگ الگ مِلے یہ اور بات ہے!
ورنہ جہاں سے خضر چلے تھے، وہِیں سے ہم
اِک روز چِھین لے گی ہَمِیں سے زمِیں ہَمَیں
چِھینیں گے کیا ، زمِیں کے خزانے زمِیں سے ہم
سونے دو اب، کہ صُبحِ قیامت قریب ہے !
کل، پِھر کہیں گے قصۂ ہستی، یہیں سے ہم
ہاتھوں میں اپنے، ہاتھ ہمارے لئے رہو
دُنیا کے بعد اُلجھ نہ پڑیں، آج دِیں سے ہم
حُسنِ طَلَب میں خُود کو صَبا کھو چُکے ہیں جب !
اچّھا تو کیوں نہ مانگ لیں خود کو تمھیں سے ہم
صبا اکبر آبادی
No comments:
Post a Comment