یہ دِل اب بھی محبت کے ٹھکانے ڈھونڈ لیتا ہے
خزاں رُت میں بھی یہ موسم سہانے ڈھونڈ لیتا ہے
کبھی ملتا نہیں ہے تیر اِس کو پار کرنے کو
کبھی یہ تیر بن کر خود نشانے ڈھونڈ لیتا ہے
اِسے "اُستاد" کر ڈالا ہے سب کی" مہربانی" نے
یہ "بچہ" اب تو اپنوں میں بیگانے ڈھونڈ لیتا ہے
یہ "اندھا" ہے مگر، لوگوں کے چہرے پڑھتا رہتا ہے
یہ سلوٹ دیکھ کر "بیتے فسانے" ڈھونڈ لیتا ہے
یہ اندر کا قلندر جب کبھی بھی موج میں آئے
یہ بیعت کے لیے پھر بادہ خانے ڈھونڈ لیتا ہے
یہ اپنی شور کرتی خامشی سے تنگ آئے تو
نئی نظمیں، نئے نغمے، ترانے ڈھونڈ لیتا ہے
"محبت ایک دھوکہ ہے" اِسے سمجھا چکا، لیکن!
یہ اِس دھوکے میں رہنے کے بہانے ڈھونڈ لیتا ہے
یہ جب بھر آئے تو ، اشکوں کو لے کر غم غلط کرنے
کوئی دربار ، یا پھر آستانے ڈھونڈ لیتا ہے
علیؔ ! جب بھی کبھی تنہائی میں مَیں مسکراؤں تو
یہ بند آنکھوں کے پیچھے مہرؔ نامے ڈھونڈ لیتا ہے.
No comments:
Post a Comment