خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں جانے کیوں
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
ڈوب جاوں تو کوئ موج نشاں تک نہ بتائے
ایسی ندی میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے
کبھی مل جائے تو رستے کی تھکن
جاگ پڑے
ایسی منزل سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
وہی پیماں جو جی کو خش آیا تھا بہت
اسی پےماں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے
افتخار عارف
No comments:
Post a Comment