اس جہاں کے حساب ٹھیک نہیں
کچھ بھی کر لو جواب ٹھیک نہیں
ڈھونڈتا کیا میں اس کی تعبیریں
جانتا جب کہ خواب ٹھیک نہیں
کیا سکھائے گا ڈھنگ جینے کا
خود زمانہ جناب ٹھیک نہیں
قافلہ کب ہیں ہم ہجوم ہیں بس
جس کا اک ہم رکاب ٹھیک نہیں
ہار کر خود کو ہم یہاں جیتے
ہم سا بھی کامیاب ٹھیک نہیں
جو بھی کہنا ہے صاف کہہ دیجے
گفتگو میں حجاب ٹھیک نہیں
تھی لڑکپن تلک حسیں دنیا
جب سے آیا شباب ٹھیک نہیں
جو نہیں پاس اس پہ مرتے ہیں
اور جو دستیاب ٹھیک نہیں
خود وہ دل شمع سے لگا بیٹھے
اور ضد ، آفتاب ٹھیک نہیں
جھک کے کہتے ہیں اس محبت سے
آپ سا بھی عتاب ٹھیک نہیں
اور ابرک میں کچھ برائی نہیں
دل کا خانہ خراب ٹھیک نہیں
No comments:
Post a Comment