Tuesday, 16 July 2019

اس جہاں کے حساب ٹھیک نہیں

اس جہاں کے حساب ٹھیک نہیں
کچھ بھی کر لو جواب ٹھیک نہیں

ڈھونڈتا کیا میں اس کی تعبیریں
جانتا جب کہ خواب ٹھیک نہیں

کیا سکھائے گا ڈھنگ جینے کا
خود زمانہ جناب ٹھیک نہیں

قافلہ کب ہیں ہم ہجوم ہیں بس
جس کا اک ہم رکاب ٹھیک نہیں

ہار کر خود کو ہم یہاں جیتے
ہم سا بھی کامیاب ٹھیک نہیں

جو بھی کہنا ہے صاف کہہ دیجے
گفتگو میں حجاب ٹھیک نہیں

تھی لڑکپن تلک حسیں دنیا
جب سے آیا شباب ٹھیک نہیں

جو نہیں پاس اس پہ مرتے ہیں
اور جو دستیاب ٹھیک نہیں

خود وہ دل شمع سے لگا بیٹھے
اور ضد ، آفتاب ٹھیک نہیں

جھک کے کہتے ہیں اس محبت سے
آپ سا بھی عتاب ٹھیک نہیں

اور ابرک میں کچھ برائی نہیں
دل کا خانہ خراب ٹھیک نہیں

No comments:

Post a Comment