سُوفطا
وہ جو ہے، وہ مجھے
میرے شائستہ افکار
میرے ستودہ خیالات سے
باز رکھنے کی کوشش میں
ہر لمحہ سرگرم رہتا ہے
کل رات کی بات ہے
وہ پروٹاگورس کا جنا
نطفۂ نابجائے سو فسطائیاں
میرے بستر پر کروٹ بدلتے ہوئے
آپ ہی آپ کہنے لگا
لفظ معنی سے برتر ہیں
میں قبلِ سقراط کے سب زباں ور حکیموں
کے سر کی قسم
کھا کے کہتا ہوں
یہ میری اُغلوطہ زائی نہیں
ژاژ خائی نہیں
لفظ برتر ہیں معنی سے، معنائے ذی جاہ سے
اور وہ یوں کہ معنی تو پہلے سے موجود تھے
سن رہے ہو! میں واہی تباہی نہیں بک رہا
اپنی بستی کا سرشور، بیہودہ گفتار دیوانہ، جوداگرم
اپنے ہیجانِ معنی کی حالت میں
علامہ ایلیاء سے کسی بھی طور کم نہ تھا
یہ بھی سن لیجیے!
وائرس تک سرو برگِ الہامِ معنی سے پُرمایہ ہے
اب رہے لفظ
[بیچارے، جن کی، جنہیں مُبدعانہ روش سے
برتنے کے دشوار پرداز کی، رستورانوں کے
آسان طلب، نابہ ہنگام فقرہ طراز اور غوغائی
دانشوروں، شاعروں کے تئیں
ایک خارش زدہ بھیڑ کی چھینک سے
کچھ زیادہ حقیقت نہیں
کیا یہ بکواس ہے، صرف بکواس؟]
ہاں لفظ ایجاد ہیں
یہ ہزاروں، ہزاروں برس کے
سراسیمہ گر اجتہادِ تکّلم کا انعام ہیں
ان کے انساب ہیں
جن کے اسناد ہیں
اور پھر انکی تاریخ ہے
اور معنی کی تاریخ کوئی نہیں
No comments:
Post a Comment